ڈاکٹر زاہد شاہ (ممتاز دانشور، مایہ ناز محقق، منفرد مصنف، اسلامی نظریے اور سیاسی و سماجی اقدار کا گرم جوش حامی اور وکیل ہی نہیں بلکہ ہر آن ان کے لیے سرگرم عمل بھی، ڈائریکٹر "شعبہ ترجمہ” صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا) ایک باغ و بہار اور قابلِ رشک انسان ہیں۔ میرے دل میں ایک معیاری انسان کا جو خاکہ قدرت نے نصب کیا ہے اس پر اپنے آنکھوں کے سامنے اگر کوئی شخص پورا اترتے دیکھا ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب ہی ہیں۔ بے شمار اسباب اور محرکات ہیں جن کی بنیاد پر موصوف میرے قابل فخر ہیں۔ آپ کی شخصیت میں قدرت نے جس فراوانی اور توازن سے ذہانت، بصیرت، شجاعت، غیرت، متانت، مسرت، محبت، شفقت، علمیت اور شفافیت کی آمیزش کی ہے حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ یہ بہت ہی نایاب مثالوں میں سے ایک ہے۔
1970 کو ضلع دیر کے علاقے میدان کے جنت نظیر گاؤں تھل میں صدیوں سے آباد صاحبزادگان کے معزز خاندان میں صاحب زادہ زمان جان مرحوم کے ہاں پیدا ہونے والے ڈاکٹر زاہد شاہ ہوش سنبھالتے ہی حصول علم کو اپنی منزل قرار دے کر دن رات اس میں مشغول ہوگئے۔ جدید و قدیم اور روایتی و غیر روایتی ہر طرح کے علوم سے خود کو صرف گزارا ہی نہیں بلکہ خوب سیراب بھی کیا اور علم کو حاصل کرنے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اس پر مقدور بھر عمل بھی کیا مزید برآں آپ محض علمی شخصیت نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لطیف انسانی جذبوں کا ایک ٹھیک ٹھاک سمندر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محفلوں میں بیٹھ کر بندہ خوشی، علم اور اسلام سے گہری محبت میں برابر اضافہ محسوس کر رہا ہے۔ میں نے دس برس کی عمر سے آپ کو دیکھنا اور سننا شروع کیا بخدا آپ ایک نابغہ روزگار انسان ہیں آپ کو دیکھ، سن اور ملاحظہ کر کے ایک اچھے، سچے، میٹھے اور کھرے انسان کا نقش دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر زاہد شاہ نے زندگی گزارا نہیں بلکہ بنایا ہے۔ آپ نے ہر اس صلاحیت اور خوبی سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے جن سے زندگی بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آپ کی شخصیت میں علم، جذبے، شعور، غیرت ایمانی، حق گوئی و بے باکی، محنت و مشقت، تفکر و تدبر، احساس فرض اور اجتماعی اصلاح کے لیے محض "وعظ” سے نہیں بلکہ "تحریک” سے وابستگی جیسی خوبیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ آپ نے ہر موقع و محل پر وہی بات کی اور عمل کر دکھایا جس کی توقع ایک معقول اور انصاف پسند شخص کو ہوتی ہے۔ آئیے ایک معیاری انسان کی شخصیت کا میرے اندر جو قدرتی طور پر تصوراتی خاکہ کھینچا گیا ہے اور جس کا زمینی نمونہ ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ ہمیشہ بنتے آرہے ہیں اس کا ذرا سا نظارہ کرتے ہیں۔
ایک معیاری انسان کا نقطہ آغاز جذبات ہیں۔ جذبات سے خالی انسان کبھی معیاری انسان نہیں بن سکتا۔ زندگی کے خالی نقشے میں رنگ ہمیشہ جذبات کے ذریعے بھرا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محفل ہو، نوجوان شریک محفل ہو اور قہقہے بلند نہ ہو یہ "اتفاق” ناممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں جذبات کا ایک وسیع رینج موجود ہے مثلاً خوشی، ہمدردی، خلوص، بے تکلفی، جلال، محبت اور بہت کچھ۔ ان میں انسانی وابستگی کی صلاحیت اعلی درجے میں پائی جاتی ہے اور وہ دوسروں کے جذبات کو کما حقہ سمجھ کر مناسب ردعمل دینے پر خوب قادر ہیں۔
ایک معیاری انسان حد درجہ پر اعتماد ہوتا ہے وہ نہ صرف ایک ٹھوس نظریہ اور مضبوط نقطہ نظر رکھتا ہے بلکہ ان سے حد درجہ مخلصانہ وابستگی بھی رکھتا ہے۔ اس معاملے میں وہ مخالفانہ احوال سے گھبراتا ہے نہ ہی کسی مصلحت یا لالچ سے اس کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں اعتماد کا پورا گھر بسا ہے وہ اعتماد سے بھرپور قلب و نظر کے حامل انسان ہیں وہ ٹنوں کے حساب سے اعتماد رکھتا ہیں ان کا چہرہ، ان کا لہجہ، ان کی آنکھیں، ان کا ماتھا اور ان کی مسکراہٹیں دل میں موجود لامحدود ایمان اور اعتماد کا پتہ دیتے ہیں۔
معیاری انسانوں میں سوچنے سمجھنے، استدلال پیش کرنے، مسئلہ حل کرنے اور اپنے تجربات سے کچھ مفید سیکھانے کی صلاحیت ایک اہم خوبی شمار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس دانشورانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں جو انہیں گہرا علم پانے، معقول بات یا فیصلہ کرنے اور تنقیدی سطح پر بہترین نظری یا عملی متبادل پیش کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ کتنے نوجوان، ادھیڑ عمر اور بزرگ اپنے اپنے مخصوص مسائل اور احوال میں ڈاکٹر صاحب سے روزانہ کے حساب سے رجوع کرتے ہیں اور اطمینان بخش حل پا کر لوٹ جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا کوئی حساب کتاب معلوم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے علم و دانش دیکھ کر میرا علم پر بطورِ نعمت ہونے کا یقین پختہ ہوتا ہے۔
انسان فطری طور پر سماج پسند مخلوق ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ روابط اور تعاملات تلاش کرتے رہتے ہیں۔ معیاری لوگ اکثر رشتے ناطے، روابط اور کمیونیٹی بناتے رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے، تعاون کرنے اور مربوط رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میں یہ خوبی کمال درجے میں موجود ہے۔ آپ لاتعلق اور بے حس انسان قطعاً نہیں۔ آپ ہر انسانی، سماجی اور اخلاقی مسئلے پر ٹھیک ٹھاک سٹینڈ لیتے ہیں اور جو مناسب رہنمائی ہوتی ہے وہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔
اس طرح معیاری انسان اپنی پوری زندگی میں ذاتی ترقی اور فلاح و بہبود کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسے لوگ نئی مہارتیں سیکھتے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں، دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے عملی زندگی کا آغاز پرائیویٹ سکول میں درس و تدریس سے کیا تھا لیکن آج صوبائی اسمبلی میں اہم عہدے پر فائز ہیں۔ یہ بہتر سے بہترین کی جانب سفر کا وہ فطری داعیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر دل میں اتارا ہے لیکن بعض لوگ اس کو منجمد چھوڑتے ہیں اور بعض اس کو حرارت دے کر کام میں لاتے ہیں اور یوں بہتر سے بہترین کی جانب گامزن رہتے ہیں۔
معیاری انسان صحیح اور غلط کا کما حقہ ادراک رکھتا ہے اور اخلاقی جرآت کی مضبوط صلاحیت بھی۔ عملی مسائل میں کبھی ڈاکٹر صاحب کی جرآت اور شعور نے صحیح اور غلط کو خلط ملط نہیں ہونے دیا، بہت سارے لوگ خوف یا لالچ میں آکر درست بات کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب ایسی کسی بھی علت کو قریب بھی نہیں آنے دیتے جو حق گوئی کو روکے۔ میں کئی ایسے مواقع کا شاہد ہوں جن میں کئی لوگوں نے مصلحتوں کے تقاضوں کو دیکھ کر اصول کے تقاضے بالائے طاق رکھ دئیے لیکن یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت ہے کہ وہ ایسے احوال اور علتوں سے کبھی نہیں گزریں۔
ہر شخص کی اپنی دلچسپیاں، صلاحیتیں اور نقطہ ہائے نظر ہوتے ہیں جو انہیں منفرد بناتے ہیں۔ انسان اپنی انفرادیت کا اظہار اپنی پسند و نا پسند، ترجیحات و اقدامات اور ذاتی انداز و اطوار سے کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب اپنا ایک صحت مند ثقافتی اور تہذیبی وجود رکھتا ہے۔ سیاست، سماجیات، فقہ، تاریخ اور اپنے اسلاف سے گہری محبت آپ کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ آپ ایک متلاشی ذہن اور روح کے حامل انسان ہیں آپ کی محفل ہو یا پھر مضمون ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور مل جاتی ہے جو کہ نہ صرف آگہی اور شعور کی سطح کو بلند کر دیتی ہے بلکہ خوشی اور اطمینان کے حصول میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ایک معیاری انسان ذات اور سماج کے تعلقات کو ہمیشہ توازن سے نبھاتے ہیں۔ وہ نہ ذات میں گم ہوتا ہے نہ ہی سماج میں بلکہ دونوں کے تقاضوں سے بطریق احسن نمٹ لیتا ہے اور اس سلسلے میں افراط و تفریط سے کبھی کام نہیں لیتا۔ ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ پایا ہیں اور جو کچھ انہوں نے معاشرے کو لٹایا ہیں وہ اس توازن کا خوبصورت نمونہ ہے۔ انسانوں کے کچھ ذاتی ضروریات ہوتی ہیں اور اسی طرح سماجی فلاح و بہبود کے تقاضے بھی ان دونوں کو افراط و تفریط سے بچا کر کما حقہ برتنا ہوتا ہیں۔
معیاری انسان میں نہ صرف تخلیقی اور تحقیقی صلاحیت موجود ہوتی ہے بلکہ اس کو اظہار کے راستے بھی دیتا ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے خاص میدان مطالعہ و تحقیق، تصنیف و تالیف اور تاریخ و آثار ہیں۔ آپ تقریباً 56 کتب اور تحقیقی مقالات ضبط تحریر میں لائیں ہیں۔ ان وقیع علمی پیشکشوں نے اہل علم و نظر سے خوب داد و تحسین پائی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو مختلف مشکلات میں اطمینان کا تصور دے سکتے ہیں، مناسب حال رہنمائی کرسکتے ہیں اور نت نئے خیالات اور امکانات کو تلاش کرسکتے ہیں۔
ایک معیاری انسان مسلسل سیکھنے اور فکری تحریک کی عادت پیدا کرتا ہے۔ اس میں کتابیں پڑھنا، موجودہ واقعات پر آپ ڈیٹ رہنا، مختلف کورسز کرنا یا سیکھنے کو فروغ دینے والے مشاغل اس عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب کا ثانی ملنا مشکل ہوگا آپ کی زندگی سیکھنے سیکھانے سے عبارت ہے۔ آپ نے تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو حرزِ جاں بنایا ہے جس میں انہوں نے "محد سے لحد تک” علم حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔
معیاری لوگ اپنی دلچسپیوں اور ترجیحات کی بنیاد پر مختلف تفریحی سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس میں پڑھنا، مختلف کھیل کھیلنا، ورزش کرنا، باغبانی کرنا، کھانا پکانا، سفر کرنا یا تخلیقی و تحقیقی مقامات کا رخ کرنا شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں بھی کافی آسودہ حال واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے معیاری افراد نئی مہارتیں سیکھ کر، تعلیم یا سرٹیفیکیٹس حاصل کر کے، ورکشاپس یا سیمینار میں شرکت کر کے یا ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہو کر جو خود کو بہتر بنانے اور خود آگاہی کو فروغ دینے کے ذریعے ذاتی ترقی اور سماجی فلاح کے لیے ثمر بار ثابت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس میدان کے بھی قابل رشک شہسوار ہیں۔ آپ پانچ مضامین میں ماسٹر اور تین مضامین میں پی ایچ ڈی ہیں۔ آپ جید علماء کے شاگرد رہے ہیں اور آپ نے سب سے زیادہ اگر کسی کام میں محنت کی ہے تو بلا شبہ وہ سیکھنا ہے۔ آپ اس قدر آپ ڈیٹ رہتے ہیں کہ بے شمار لوگ آپ ڈیٹ ہونے کے لیے آپ کی جانب رجوع کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب خاندان، نظریاتی اور تحریکی شراکت داروں اور دوست و احباب کے ساتھ بامعنی تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ رابطے میں رہنا، موزوں رہنمائی کرنا اور بامعنی تعلقات کو فروغ دینا ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
معیاری افراد بامقصد رہنے اور اپنے وقت کو مؤثر طریقے سے منظم انداز میں استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے اپنی 32 سالہ سماعت، بصارت، مطالعت اور مانوسیت کے تعلق میں کوئی ایسی بات یا کام مجھے یاد نہیں جس پر فضول کا اطلاق ہو رہا ہو۔ معیاری افراد اپنے اعمال، مواقع، زندگی اور وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے باقاعدہ اہداف طے کرتے ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان اہداف کے لیے کام کرنے کے منصوبے کیا ہو سکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کے علمی و عملی کام کے معیار اور مقدار کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے قابلِ قدر اہداف طے کر کے ان کے حصول میں کما حقہ کامیابی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے دو بھائی، پانچ بیٹے اور بے شمار دوست، شاگرد اور ان کے علاؤہ محبت کرنے والوں کی لامحدود تعداد ہے۔ آپ کی پہلی شادی 1996ء کو ہمارے خاندان میں (سید سبحانی جان کی بیٹی سے) ہوئی تھی جو کہ چند برس قبل وفات پائی ہے۔ آپ روزانہ کے حساب سے مخلوق خدا کو درست علمی اور عملی رہنمائی بہم پہنچانے کے لیے کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ نے زندگی کا ایک ایک لمحہ شعوری طور پر خوشنودی رب کے حصول، مخلوق خدا کی درست رہنمائی اور اسلامی نظام کے لیے جاری جد و جہد میں اپنا حصہ پورے خلوص اور اہتمام سے شامل کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے رب کے خزانوں سے طویل زندگی، کثیر خوشیاں، عمیق صحت اور لامحدود برکات پائیں اور اپنے علم و عمل سے ایسے ہی کام لے کر وہی کچھ مخلوق خدا کو لٹائے جو اس کی زندگیوں میں خیر اور خوشیاں لے آئیں۔