میڈیا، خاص کر الیکٹرانک میڈیا، جاذبِ نظر چہروں، واضح لہجوں، چکاچوند روشنیوں، معتبر ذرائع، متعلقہ عنوانات اور دلچسپ خبروں کی آمیزش سے وجود میں آنے والا ایک ایسا جادوئی دائرۂ کار ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو فیصلہ کن انداز میں متاثر کیا ہے۔ کیا سیاست، کیا معیشت، کیا معاشرت، کیا تجارت، کیا ثقافت، کیا علاقائیت، کیا بین الاقوامیت، کیا تقسیم، کیا تفریق، کیا جنگ، کیا امن، کیا محبت اور کیا نفرت—غرض میڈیا نے کوئی بھی معاملہ چھیڑے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ یہ وہاں بھی مداخلت کر رہا ہے جہاں اصولاً اس کی مداخلت نہیں بنتی، لیکن پھر بھی ہوتی رہتی ہے۔
میرا چھوٹا بھائی، سید کفایت اللہ جان (پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ ماحولیات)، اس معاملے میں ایک دلچسپ تبصرہ کرتا ہے جو مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے: "میڈیا بغیر کسی استحقاق یا صوابدید کے ہر معاملے پر دھڑادھڑ بول رہا ہے۔ میڈیا کا استحقاق اور صوابدید کیا ہے؟ اس بارے میں کسی کا ذہن بھی واضح نہیں۔ میڈیا پر معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار اور افتراق کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ ملکی میڈیا، ملکی استحکام اور سلامتی کے حصول میں مددگار کم، ضرر رساں زیادہ ہے۔”
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں میڈیا کے لیے نہ کوئی ٹریک ہے، نہ کوئی ضابطہ، نہ کوئی معیار۔ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی اور اجتہاد کی ضرورت ہے تاکہ اس کے آداب، اخلاقیات اور دائرۂ کار کے بارے میں واضح خطوط کھینچے جا سکیں، تاکہ یہ حقیقی معنوں میں آگہی اور شعور کا ذریعہ بنے، نہ کہ انتشار اور خلفشار کا حربہ۔
میرا بنیادی رجحان اور میلان صحافتی اور صوفیانہ ہے۔ ناچیز بچپن سے ہی کچھ قدرتی اور کچھ باطنی اسباب کی بنا پر ان دونوں جہتوں کی طرف متوجہ رہا ہے، اور ان دھاروں میں اتنا دور نکل آیا ہے کہ اب وقت اور نظر کا بڑا حصہ انہی راہداریوں میں صرف ہو رہا ہے۔ اخبار پڑھنا، ٹی وی دیکھنا، ہاتھوں اور نگاہوں کے درمیان اسمارٹ فون کا جم جانا، خبروں کی دلچسپی میں مسلسل رہنا، بزرگوں کی محفلوں میں بیٹھ کر سکون محسوس کرنا، عبادت کے وقت اللہ کے گھر کا رخ کرنا، اذکارِ مسنونہ کا اہتمام رکھنا، زندگی اور کائنات کے بیچوں بیچ بے شمار روحانی لہروں کو پانا، کوئی شور کرے تو خاموش ہو جانا اور کوئی سختی پر اُترے تو نرم پڑ جانا، کچھ کاموں سے خود بخود رک جانا اور بہت کچھ کے لیے غیر ارادی طور پر آگے بڑھ جانا، کوئی ذرا سا میٹھا ہو جائے تو پورا "میٹھائی” بن جانا، کوئی دور ہونا چاہے تو محض رخ بدل لینا—یہ سب باتیں بچپن سے آج تک میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں اور میں ان کے ساتھ قدم بہ قدم شاہراہِ حیات پر آگے بڑھ رہا ہوں۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب تک کا سفر ہموار بھی ہے اور اطمینان بخش بھی، بامقصد بھی ہے اور تعمیری بھی، نظری بھی ہے اور نظریاتی بھی، جذباتی بھی ہے اور ٹھنڈا میٹھا بھی۔
صحافت کے میدان میں جس فرد کے لفظوں نے میرا ذہن در بدر گھمایا، پھرایا اور چشمِ تصور سے وہ سب کچھ دکھایا جو میں دیکھنے کا متمنی تھا، وہ جاوید چوہدری ہیں۔ اور جس خاتون کے لہجے نے مجھے دم بخود کر کے پہلے روکا، پھر تھاما، پھر بٹھایا، پھر متوجہ کیا اور پھر اُس وقت تک پاس رکھا جب تک پروگرام ختم نہ ہو گیا، وہ پاکپتن سے تعلق رکھنے والی معروف ٹی وی میزبان عائشہ بخش ہیں (جو آج کل سماء ٹی وی پر پروگرام Straight Talk کی میزبانی کر رہی ہیں)۔
عائشہ بخش، الیکٹرانک میڈیا کا ایک ممتاز نام اور مقام رکھتی ہیں۔ انہیں یہ مقام اپنے واضح لہجے، جاذبِ نظر چہرے، دوٹوک بات چیت، مہذب انداز و اطوار، اور رنگ برنگے اسکینڈلز کے ماحول میں شفاف کردار کی بدولت ملا ہے۔
عائشہ بخش کو میں جس قدر رغبت، توجہ اور انہماک سے ملاحظہ کر رہا ہوں شاید ہی کوئی اور اس درجے میں ہو۔ عائشہ بخش کو "ففٹی ففٹی” اصول کے تحت کچھ خدا نے عطا کیا اور کچھ انہوں نے خود کو نکھارا—نتیجتاً وہ آج پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کا ایک چمکتا دمکتا نام اور سلجھی ہوئی شخصیت ہیں۔
آیئے، ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
عائشہ بخش 4 جولائی 1981 کو پاکپتن (پنجاب) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام میاں محمد بخش اور والدہ کا نام روبینہ بخش ہے۔ ان کے تین بہن بھائی اور ہیں: دو بھائی، ذیشان بخش اور عثمان بخش، جبکہ ایک بہن صائمہ بخش ہیں۔
عائشہ بخش نے ساہیوال کے سینٹ میری کانوِنٹ اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی سے مواصلاتی علوم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
عائشہ بخش کا شمار بااثر ٹی وی میزبانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز اگرچہ اے آر وائی نیوز سے کیا، لیکن طویل عرصہ جیو نیوز سے منسلک رہیں۔ جیو پر بطور اینکر ان کی پہلی پیشکش ناظم حاضر ہو تھی۔ بعد ازاں انہوں نے "کرائسس سیل”، "آج کامران خان کے ساتھ”، "رپورٹ کارڈ”، اور "لیکن” جیسے پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔
عائشہ بخش کی شادی فروری 2011 میں عدنان امین نامی ایک نوجوان سے ہوئی۔ آج کل وہ Straight Talk کے نام سے سماء ٹی وی پر ایک شو کی میزبانی کر رہی ہیں۔
وہ میڈیا پرسنز کے اس بارہ رکنی وفد کا بھی حصہ رہیں جو 4 جولائی 2011 کو چین کے شہر بیجنگ کے دورے پر گیا تھا۔
عائشہ بخش نے 2012 اور 2014 میں تیسرے اور چوتھے پاکستان میڈیا ایوارڈ میں بہترین نیوز کاسٹر کا اعزاز جیتا۔
عائشہ بخش کی سوچ اور اپروچ میں وسعت، معقولیت اور حب الوطنی نمایاں ہے۔ اس کا اندازہ 14 اگست کے موقع پر ان کے پیغام سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے کہا:
"پاکستان کا 75 واں یومِ آزادی آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ 1947 میں ہمیں ایک ملک تو مل گیا لیکن ایک قوم بننا ابھی باقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب رنگ، نسل، زبان اور عقیدے سے بالاتر ہو کر پاکستان کو عظیم تر بنانے کے لیے اپنی اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔”
یہ پیغام اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عائشہ بخش نہ صرف باصلاحیت صحافی ہیں بلکہ ان کا قلب و نظر ملک کی محبت اور قوم کی خیرخواہی سے لبریز ہے۔
ایسے وقت میں جب نفرت اور تعصب نے سوچوں کی دنیا کو ویران کر دیا ہے، ایک نمایاں شخصیت کی ایسی تعمیری سوچ نہایت خوش آئند ہے۔
بعض ذرائع کے مطابق، عائشہ بخش کے والد محترم میاں محمد بخش، جماعت اسلامی ضلع پاکپتن کے امیر رہ چکے ہیں۔ غالباً 2006 کے آس پاس انہوں نے محترم امیر العظیم (سیکریٹری جنرل، جماعت اسلامی پاکستان) سے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کی بیٹی کے میڈیا کیریئر کے لیے کوئی مناسب موقع دلایا جائے۔ امیر العظیم نے اس سلسلے میں سینئر صحافی نصراللہ ملک (اس وقت اے آر وائی نیوز لاہور کے بیورو چیف) سے رابطہ کیا، اور یوں عائشہ بخش کو پہلی ملازمت ملی۔
عائشہ بخش نے اپنی قدرتی اور اختیاری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر الیکٹرانک میڈیا میں اہم مقام حاصل کیا۔
میرا ماننا ہے—اور اس کے پیچھے ایک عمر کا مشاہدہ و تجربہ ہے—کہ اگر انسان اپنی قدرتی صلاحیتوں کا بروقت ادراک کر کے متعلقہ شعبے کا درست انتخاب کرے، اور ان کے ساتھ کچھ اختیاری خوبیاں بھی پیدا کرے، تو وہ نہ صرف کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ ایک باعزت، بامقصد اور بااثر شخصیت بھی بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ نظر عطا فرمائے جس سے ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچان سکیں، اور وہ ہمت بھی دے جس سے ہم ان صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کر سکیں۔