اسلام میں زکوٰۃ: غربت کے خلاف حکمتِ الٰہی کا نظام:

اسلام میں زکوٰۃ کے نظام کے حوالے سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نظام کا ہونا بذاتِ خود اسلامی معاشرے میں غربت کے سرکاری اعتراف کے مترادف ہے۔

اس اعتراض کا جواب تاریخِ اسلام کی ایک روشن مثال سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت معاذ بن جبلؓ یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے پہلے سال یمن سے زکوٰۃ کا ایک تہائی حصہ مدینہ بھیجا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں پیغام دیا کہ: "میں نے تمہیں یمن صرف زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے نہیں بھیجا، بلکہ اسے وہاں کے مستحقین میں تقسیم کرنے پر بھی مامور کیا ہے۔”

اس کے جواب میں حضرت معاذؓ نے عرض کیا: "میں نے زکوٰۃ اس حال میں بھیجی ہے کہ یہاں کوئی مستحق باقی نہ رہا۔” دوسرے سال انہوں نے آدھا حصہ بھیجا، اور تیسرے سال مکمل زکوٰۃ مدینہ روانہ کی۔ ہر بار وہی گفتگو حضرت عمرؓ اور حضرت معاذؓ کے مابین دہرائی گئی۔
یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام غربت کے خاتمے کے لیے ہے، نہ کہ اسلامی معاشرے میں غربت کا کوئی سرکاری اعتراف۔

اس کے برخلاف، اسلامی نظام میں زکوٰۃ کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ اسلام جس طرح کا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اُس میں مالدار ہونا اگر جائز ذرائع اور محنت کے بل بوتے پر ہو، تو وہ نہ صرف قابلِ قبول بلکہ معاشی توازن کے لیے ضروری ہے۔

اسلامی نظام میں زکوٰۃ کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے خدا ترس، صاحبِ ثروت افراد موجود ہیں جو اپنے محنت سے حاصل شدہ مال کو محض ثواب کی نیت سے نہیں، بلکہ نماز کی طرح ایک فریضہ سمجھ کر، اللہ کے حکم کی تعمیل میں، غریبوں تک پہنچاتے ہیں۔

چونکہ زکوٰۃ اسلام میں مالداروں پر فرض ہے، اس لیے اسلامی نظامِ معیشت میں زکوٰۃ کا وجود لازماً اس بات کا متقاضی ہے کہ یہاں ایسی مالداری موجود ہوگی جو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح غریبوں کا استحصال نہیں کرے گی، اور نہ ہی کمیونزم کی طرح محنت کش اور مالدار طبقے کے مابین تصادم پیدا کرے گی۔ یہ دونوں طرزِ فکر بہرحال سوسائٹی کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

حضرت عمرؓ اور حضرت معاذؓ کے مابین یہ مکالمہ تاریخی طور پر اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ زکوٰۃ کا نظام اسلام میں غربت مٹانے کی منفرد اسکیم ہے، نہ کہ غربت کے وجود کا کوئی حکومتی اعلان۔

اگر اس اعتراض کو عوامی فہم کے تناظر میں سمجھا جائے تو مندرجہ ذیل مثال اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے:

فرض کیجیے ایک گھر کا سربراہ خاص طور پر اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کے بچے نشے جیسی برائی سے محفوظ رہیں۔ وہ اپنے پڑوسیوں، دوستوں اور رشتہ داروں سے کہتا ہے کہ اگر کبھی ہمارے بچوں کو نشہ کرتے، نشہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھتے یا کسی مشکوک محفل میں دیکھا جائے تو ہمیں فوراً آگاہ کیا جائے۔ گھر کے اندر بھی ان کے اخراجات اور عادات پر نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی نشانی ایسی نہ ہو جو نشے کی طرف اشارہ کرے۔

اب اگر کوئی اس انتظام کو دیکھ کر یہ کہے کہ "اس گھر کے بچے لازماً نشئی ہیں” تو یہ سراسر بے عقلی ہوگی، کیونکہ دراصل یہ بندوبست اس بات کی دلیل ہے کہ گھر کا سربراہ نشے کے حوالے سے حساس ہے، اور یہی حساسیت بچوں کے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے۔

بالکل یہی مثال اسلامی نظامِ معیشت پر بھی صادق آتی ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ کے نظام کا وجود دراصل غربت کے حوالے سے اسلام کی حساسیت کا مظہر ہے۔ اور یہی حساسیت وہ عنصر ہے جو اسلامی معاشرے کو دیگر معاشروں کے مقابلے میں غربت سے زیادہ محفوظ بناتی ہے۔

اگر ایک نظام صرف تین سال کے اندر کسی علاقے میں غربت ختم کر دے تو عقلِ سلیم خود تقاضا کرتی ہے کہ ایسے نظام کو اپنایا جائے، اس کی تقلید کی جائے، نہ کہ اس کے خلاف تعصب یا بے بنیاد پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس پر اعتراض کیا جائے۔

یہ اعتراض درحقیقت اسلام کو کمزور اور بے وقعت دکھانے کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن جب اس پر غور کیا جائے تو یہی اعتراض اسلام کی حقانیت کی دلیل بن جاتا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جسے غالبا صفی لکھنوی نے یوں بیان کیا تھا:

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا، جتنا کہ دبائیں گے

اور یہی حقیقت قرآن نے صدیوں پہلے ہمیں بتا دی تھی:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُطْفِـئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّا اَنْ يُتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۝
(سورۃ التوبہ: 32)

ترجمہ:”یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے