نو دن لندن میں گزارنے کے بعد یقین ہونے لگا کہ دنیا واقعی مہذب ہو چکی ہے۔
لندن جیسے مصروف اور مہنگے شہر میں کسی نے آواز نہ دی، نہ پیچھے لگا، نہ کسی نے چالاکی سے پیسے اینٹھنے کی کوشش کی۔
راستہ پوچھو تو لوگ رُک کر نہایت تمیز، نرمی اور خوش اخلاقی سے سمجھاتے ہیں گوگل میپ سے بہتر راہنمائی ملتی ہے۔
ان کی آنکھوں میں شرافت اور چہروں پر خلوص جھلکتا ہے۔
لندن میں پیدل چلنے والوں کو ایسی عزت دی جاتی ہے گویا انسان کی قدر گاڑی سے زیادہ ہو۔
روڈ کراس کرنے کے لیے صرف قدم بڑھانے کی دیر ہوتی ہے، گاڑیاں خود بخود رُک جاتی ہیں۔
میٹرو اسٹیشنز پر بزرگوں، خواتین اور بچوں کو پہلے داخل ہونے دیا جاتا ہے۔
ہوٹلوں، کیفوں اور دکانوں پر کام کرنے والے لوگ اس انداز سے بات کرتے ہیں جیسے مدد کرنا ان کی ذمہ داری نہیں، خوشی ہو۔
مصعب کے آفس میں گئے،
وہاں موجود تمام لوگ ایسے ملے جیسے نہ جانے کب کے بچھڑے ہوئے ہوں۔
ان کی آنکھوں اور لہجوں کی محبت دل میں اترتی چلی گئی۔
ایسا خلوص کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے نہ کوئی بناوٹ، نہ دکھاوا۔
لندن کی گلیوں، پارکوں اور دکانوں میں گھومتے ہوئے بار بار ایک ہی خیال آتا رہا:
"یہ کیسے لوگ ہیں؟ نہ مسلمان، نہ نماز روزے والے پھر بھی دھوکہ نہیں دیتے!”
لیکن قسمت ہمیں لے گئی استنبول اسلامی دنیا کا ایک چمکتا ہوا شہر،
جہاں ایک دن نے چودہ طبق روشن کر دیے۔
ایئرپورٹ پر ہی "خوش آمدید” کی جگہ تیز لہجہ، غصیلا رویہ اور بدتمیزی ملی۔
امیگریشن افسر کا انداز ایسا جیسے ہم کوئی جرم کر کے پہنچے ہوں۔
باہر نکلتے ہی ٹیکسی ڈرائیور اس طرح لپکے جیسے پرندے دانے پر۔
قیمت پوچھو تو میٹر کا بہانہ: "خراب ہے بھائی، لیکن فکر نہ کرو، سستا لگا دوں گا!”
گلیوں میں قدم قدم پر خود ساختہ گائیڈ، مترجم اور مددگار،
جو چند لمحوں بعد "ٹپ” یا کمیشن کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔
مشہور سیاحتی مقامات جیسے آیا صوفیہ یا گرینڈ بازار میں "مفت تحفے” دے کر بعد میں انعام مانگنے کی روایت عام ہے۔
اکثر دکانوں پر غیر ملکیوں کے لیے الگ نرخ ہوتے ہیں۔
قیمت پر بات کرو تو دکاندار برا مان جاتے ہیں۔
ریسٹورنٹس اور کیفوں میں آپ کچھ اور منگواتے ہیں، دیا کچھ اور جاتا ہے۔
اعتراض کرو تو یا تو مسکراہٹ میں بات ٹال دی جاتی ہے، یا بحث ترک زبان کے طوفان میں بدل جاتی ہے۔
سب سے بڑی مشکل یہ کہ انہیں ترکی زبان کے سوا کوئی اور زبان آتی نہیں
اور ستم یہ کہ سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
انگریزی بولیں تو جواب میں کندھے اچکائے جاتے ہیں، یا طنزیہ مسکراہٹ دی جاتی ہے۔
استنبول کی گلیاں گندگی، بدبو اور کوڑے سے بھری ہوئی ہیں۔
صفائی صرف چند چمکدار علاقوں تک محدود ہے،
عام گلیوں میں صورتحال پاکستان کے چھوٹے شہروں سے بھی بدتر دکھائی دیتی ہے۔
یقین کیجیے پاکستان کی سڑکیں، گلیاں اور ماحول ترکی سے کئی درجے بہتر اور زیادہ صاف ہیں۔
اور سب سے اہم بات ترکی میں نہ اطمینان ہے، نہ سکون، نہ تحفظ کا احساس۔
ہر لمحہ ایک انجانا سا دباؤ، ہر منظر میں ایک بے یقینی چھپی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ترکی کی سرزمین پر قدم رکھنے کے صرف چار گھنٹے بعد دل سے آواز آئی:
"یہاں آ کر وقت بھی ضائع کیا، پیسہ بھی۔
اس سے بہتر تھا براہِ راست پاکستان چلے جاتے یا دو دن اور لندن میں گزار لیتے۔”
"یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود”