پریشان خٹک کا نام محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔آپ نہ صرف پشتو زبان و ادب کی خدمت اور اپنی لازوال و لاجواب شاعری کی وجہ سے پہچان و شہرت رکھتے ہیں بلکہ اُردو زبان و ادب پر بھی آپ کے بہت سے احسانات ہیں اس لیے کہ اُردو نثر میں آپ کی تصانیف اور خدمات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔
(۱)سرحدی قبائل کے رسم و رواج(۲)اٹوٹ لسانی رابطہ(۳)دیوان خواجہ محمد بنگش(تدوین)(۴)جدید پشتو شاعری(۵)نظریہ پاکستان
(۶)ترجمہ کلیات خوشحال خان خٹک۔یہ آٹھ جلدوں میں ہے اور ہر جلد کو ایک کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔
(۷)خوشحال نامہ(۸)شمال مغربی سرحدی صوبے میں تحریک آزادی (۹)پشتون کون۔
اُردو زبان و ادب کی ان خدمات کو دیکھ کر پریشان خٹک پر صرف پشتو زبان و ادب کی چھاپ لگانا زیادتی ہوگی۔اُن انہی کاوشوں کی وجہ سے اُن پر ڈاکٹر ستار خان خٹک کی زیر نگرانی ایم فل اردو کا مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ادب میں اُن کی شخصیت،حیثیت اور مقام و مرتبہ متعین ہے،مجھ جیسے کم فہم کے لیے پریشان خٹک کی شخصیت اور اُن کے فن و فکر پر بات کرنا صرف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے ناممکن ہے۔البتہ میری یہ خوش قسمتی ضرور رہی ہے کہ پریشان خٹک سے عقیدت کی بنا ء پر مجھے اُن کی صحبت میں بارہا بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔اُن کی شخصیت میں ایک سحر انگیز کشش تھی جس سے پیار ومحبت و خلوص ٹپکتا تھا۔وہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے نفیس انسان تھے۔البتہ آخری عمر میں ان کا صوتی تاثر تھوڑا خراب ہوگیا تھا۔وہ خوش گفتا ر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کے خوش لباس تھے۔
جب بھی اُن کودیکھا ہمیشہ اُن کے چہرے پر اطمینان بھری دلآویز مسکراہٹ سجی ہوئی ہوتی۔اُن کے گھر میں اتوار کے دن لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے تھے جن میں ماہر تعلیم،شعراء و ادباء،سیاستدان،ڈاکٹرز،وکلا ء الغرض ان کے ملنے والوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔یہاں ہر قسم کے موضوعات پر تبادلہ خیال جاری رہتا تھا۔اخبار ات پڑھے جاتے اور قہوے کا دور چلتا رہتا۔پریشان صاحب تمام لوگوں کو یکساں طور پر اپنے مخصوص انداز میں خوش آمدید کہتے اور ہرایک کو کوئی نہ کوئی ایسا جملہ جُڑ دیتے جس سے انسیت اور اپنائیت ظاہر ہوتی تھی۔2007 میں اُن سے پہلی ملاقا ت ہوئی جب ہم پشاور یونیورسٹی میں طالبعلم تھے۔اس ملاقات میں پیر جہانزیب اور مستان سمیت دوسرے چند دوست شامل تھے وہ پہلی ملاقات باربارملنے کا سبب بن گئی۔ہمارا اُن سے تفصیلی تعارف ہوا۔ہم میں سے جو ساتھی جس مضمون میں ماسٹر کر رہا تھا انھیں اس کی اہمیت کا احساس دلایااور بھر پور حوصلہ آفزائی کی۔یوں اُن سے ملنے کا سلسلہ چل نکلا،وہ برجستہ اور دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔
پریشان خٹک اور احمد فرازؔ میں مجھے ایک بڑی مماثلت یہ نظر آتی ہے کہ دونوں کو اپنی زندگی میں عزت،دولت اور شہرت ملی۔حالانکہ روایت چلی آرہی ہے کہ ادیب اکثر کسمپرسی اور کسی حد تک گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اوربعد ازموت انھیں شہرت مل جاتی ہے۔مجھے پریشان خٹک اور احمد فراز دونوں کے ساتھ ملاقات نصیب ہوئی لیکن فرازؔ سے ایک مرتبہ جبکہ پریشان خٹک سے باربار ملتا رہا۔ادبی شغف رکھنے والے پریشان خٹک سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ایک بار پیوٹا ہال پشاور یونیورسٹی میں رات کو پشتو مشاعرہ تھا جس کے صدر محفل پریشان خٹک تھے۔سفید لباس میں ملبوس اُس دن چہرہ معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہا تھا۔اباسین یوسفزئی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے،ہال پشاور یونیورسٹی کے طلباء و طالبات سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔مشاعرہ ختم ہونے کے بعد پریشان صاحب کے گرد چاہنے والوں کا اتنا ہجوم بن گیا کہ وہاں سے نکلنے کا مسئلہ بن گیا۔لوگ پریشان خٹک صاحب کے ہاتھ چومتے رہے۔اُن کی ایسی ہی چند باتیں اور یادیں میرے پاس محفوظ ہیں جس نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔ایک بار ہمارے دوست مستان نے خصوصاً خٹک نائٹ کے لیے ایک نظم لکھی تھی۔وہ پریشان صاحب کو سنانے لگے،وہ توجہ سے سنتے اور داد دیتے رہے،البتہ آخری مصرع پر انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا ٹھہرو ٹھہرو یہ شعر پھر سناؤ۔وہ شعر انھوں نے کچھ یوں سنایا۔
؎شکر کوم خدایا چی پیدا دے زہ پختون کڑم
ٹول پختانہ نر دی خو خٹک دی پہ اولہ
پریشان صاحب نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد آخری مصرع کچھ یوں ادا کیا۔
ٹول پختانہ نر دی دا اٹکہ تر کابلہ
یعنی انھوں نے اپنے قبیلے کو دوسرے پشتون قبیلوں پر ترجیح دینے کی بجائے سب کو یکساں مقام دیا اور اپسمیں اتفاق و اتحاد کا درس دیا۔مجھے اس پر خوش گوار حیرت ہوئی۔ایک دوسرے موقع پر میں نئے دوستوں کے ہمراہ اُن سے ملنے گیا۔اُن کو خٹک نائٹ میں بطور صدر محفل شرکت کرنے کی دعوت دی۔انھوں نے اس لیے معذرت کرلی کہ اُن دنوں ڈاکٹر نے انھیں شام کے بعد کمرے میں رہنے کی تلقین کی تھی۔اس دوران اگر اُن سے کوئی ملنے آتا تو پھر وہ اپنے کمرے میں اُن سے ملاقات کرتے یا شاید باہر لگے انٹرکام پر گفتگو ہوجاتی۔بات ہو رہی تھی ملاقا ت کی تو پریشان خٹک صاحب سب سے فرداًفرداً تعارف لے رہے تھے۔ایک دوست نے کہا کہ میں ’احمد آباد‘ کارہنے والا ہوں۔پریشان صاحب نے حیرانی سے پوچھا آپ ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں؟ دوست نے جواب دیا نہیں سر میں احمد آباد کرک کارہنے والا ہوں۔اس پر پریشان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تو یوں کہیے نا ں کہ ’ لنڈکمر‘ (یہ احمد آباد کا پرانا نام ہے) سے تعلق رکھتا ہوں۔
یہ پشتو کا کتنا پیارا لفظ ہے اور آپ لوگ اسے خوامخواہ احمدآباد بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ایک بار لمبے عرصے کے بعد اچانک میں نے پریشان صاحب کو اپنے خدمت گار کے ساتھ باغ ناران میں چہل قدمی کرتے سامنے سے آتے ہوئے دیکھا،میں تذبذب کا شکار ہوا اور یہ سوچنے لگا کہ شاید اب پریشان صاحب سے دوبارہ اپنا تعارف کرنا پڑے گا۔انھوں نے شاید میری ذہنی کشمکش کو بھانپ لیا تھا اس لیے دور ہی سے مجھے پکارا اور میر ی ہچکچاہٹ دور ہونے کے ساتھ ساتھ میں اُن کی چہرہ شناسی اور حافظے پر رشک کرنے لگا۔باغ ناران ہی کا واقعہ ہے کہ میں پریشان صاحب کے ساتھ چہل قدمی میں شامل ہوگیا اسی اثناء میں پارک کے میدان سے ڈھول بجنے کی آواز سنائی دینے لگی،جس سے اتن (اتنڑ) کا ساز نکل رہا تھا۔پریشان صاحب نے قریب جانے کی خواہش ظاہر کی،قریب پہنچ کر میں نے کہا کہ سر یہ نوجوان تو بہت منظم اور خوبصورت اتنڑ پیش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ان میں خٹکوں جیسی بے پروائی نہیں ہے۔
پریشان خٹک خوبصورت شخصیت کے مالک اور یقینا اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔وہ بہت زیادہ مہمان نواز اور محفل آرا انسان تھے یہی وجہ تھی کہ حیات آباد پشاور میں رہتے ہوئے بھی انھوں نے مشینی زندگی اختیار نہیں کی بلکہ بہت حد تک دوسروں کو بھی اپنے گھر میں حجرے جیسا ماحول فراہم کیا۔آج بھی اُن کے قریبی دوست بلاناغہ اُن کے گھر پر حاضری دیتے ہیں اور اُن کے فرزند خصوصاً خوشحال خان خٹک اور بہلول خٹک اُن روایات کی پاسداری کرتے ہیں البتہ اب وہ پہلے جیسی رونق نہیں ہوتی اور ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ پریشان خٹک کی صورت میں وہ پرکشش انسان اب اس دنیا میں نہیں ہے۔