جذبات: ایک خوش فہم دھوکہ

انسان اپنی پوری زندگی جذبات کے دھوکے میں گزارتا ہے، جیسے ایک ایسی دنیا میں رہ رہا ہو جو حقیقت نہیں بلکہ صرف اس کے دماغ کی خود ساختہ تعمیر ہو۔ خوشی، غم، محبت، نفرت، خوف—یہ تمام احساسات محض وقتی کیفیات ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت ہے، نہ کوئی پائیداری۔ ہم ان میں پناہ لیتے ہیں، جیسے کہ ان سے بچاؤ ممکن ہو، حالانکہ یہ پناہ گاہیں اصل میں ایک قید خانہ ہیں۔ جذبات انسان کو ایسی کیفیت میں مبتلا کرتے ہیں جو اسے حقیقت سے دور رکھتی ہے۔ ہم خوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اداس ہونے کی اجازت لیتے ہیں، محبت کو مقدس مانتے ہیں اور نفرت کو انسانی فطرت کا حصہ سمجھتے ہیں، مگر ان تمام تصورات میں عقل کہیں نہیں ہوتی، صرف احساس کی کور نگاہی ہوتی ہے۔

فریڈریک نیٹشے جذبات کو کمزور لوگوں کا ہتھیار سمجھتا تھا۔ اس نے خاص طور پر ہمدردی، رحم اور محبت جیسے جذبات کو "غلاموں کی اخلاقیات” کا حصہ قرار دیا۔ اس کے مطابق یہ جذبات دراصل انسان کی اندرونی کمزوری کو چھپانے کا ایک طریقہ ہیں۔ ایک مضبوط انسان حقیقت کا سامنا کرتا ہے، نہ کہ وہ اس سے بھاگ کر جذبات کی پناہ لیتا ہے۔ نیٹشے نے لکھا کہ انسان کو جذبات کی بندش سے آزاد ہو کر اپنی ذات کی خود تخلیق کرنی چاہیے، ورنہ وہ ہمیشہ بھیڑ کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔

فرانز کافکا کی تحریریں جیسے "The Trial” یا "The Hunger Artist” اسی جذباتی خود فریبی کی علامات سے بھری ہوئی ہیں۔ کافکا کا انسان شعور کے بوجھ تلے دبا ہوا ایک ایسا فرد ہے جو دنیا کے معنی تلاش کرنے کے فریب میں مبتلا ہے۔ مگر اس تلاش کا کوئی نتیجہ نہیں، کیونکہ خود دنیا میں کوئی معنی نہیں ہیں۔ انسان جذبات کے دھوکے میں زندہ رہتا ہے اور حقیقت کی بے حسی سے منہ موڑ لیتا ہے۔ کافکا کے نزدیک یہ سب ایک غیر منطقی، بے روح مشین کا حصہ ہے جس میں انسان کی حیثیت ایک بے خبر پرزے کی سی ہے، اور وہ جذبات جو ہم انسانیت کی علامت سمجھتے ہیں، دراصل ہمیں مزید غیر انسانی بنا دیتے ہیں۔

قدیم سٹائک فلسفہ بھی جذبات کے خلاف بغاوت کا علمبردار تھا۔ فلسفی کرسیپپس نے جذبات کو عقل کے خلاف طوفان قرار دیا، جو انسان کو خود پر قابو پانے سے روکتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی آزادی وہی ہے جو انسان کو جذبات سے نجات دے۔ خوشی ہو یا غم، محبت ہو یا خوف—یہ سب کیفیات غیر عقلی ہیں، اور ان کے پیچھے جانا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ وہ انسان جو جذبات کو ترک کرتا ہے، وہی اصل میں آزادی کی طرف بڑھتا ہے۔

ژاں پال سارتر نے اپنی کتاب "Sketch for a Theory of the Emotions” میں کہا کہ جذبات دراصل حقیقت سے فرار کا ذریعہ ہیں۔ جب انسان کسی چیز کو برداشت نہیں کر پاتا تو وہ جذبات کی پناہ لیتا ہے، اور حقیقت کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر دیکھتا ہے۔ ایک طرح سے جذبات حقیقت کا انکار ہیں، ایک ذہنی من گھڑت قصہ، جو ہمیں وقتی سکون تو دیتا ہے، مگر اس کے بدلے ہم اپنی اصل آزادی کھو دیتے ہیں۔ سارتر کے مطابق جذبات کا وجود دراصل فرد کی کمزوری کی علامت ہے، اور جو انسان خود کو مکمل بنانا چاہتا ہے، وہ اس جذباتی ڈرامے سے باہر نکل آتا ہے۔

C.S. Lewis نے "The Abolition of Man” میں کہا کہ اگر ہر چیز کو جذباتی تشریح کا نشانہ بنایا جائے، تو دنیا بے معنی ہو جاتی ہے۔ جب انسان ہر چیز کو صرف اپنے احساسات کے آئینے سے دیکھے، تو وہ حقیقت کے بجائے اپنی خواہشات کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ یہی خود فریبی ہے، اور یہی ہماری تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا جذبات کے بغیر ہی چلتی ہے۔ قدرت کو کسی کی خوشی یا غم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک شخص رو رہا ہو یا ہنس رہا ہو، زمین اپنی گردش نہیں روکتی، سورج اپنی روشنی کم نہیں کرتا، اور وقت کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں۔ اس دنیا کی اصل حقیقت بے حسی ہے۔ مگر ہم اس کو ماننے کے بجائے جذبات کی ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو سراسر فریب ہے۔ لوگ "فولز پیرڈیائز” میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ حقیقت ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ مگر چاہے ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، حقیقت وہی ہے جو ہے: بے رحم، بے مطلب، اور مکمل طور پر غیر جذباتی۔

اس سب کے باوجود لوگ بار بار انہی جذبات کا سہارا لیتے ہیں۔ محبت کے خواب دیکھتے ہیں، کامیابی پر خوش ہوتے ہیں، ناکامی پر روتے ہیں، جیسے ان جذبات سے کوئی فرق پڑتا ہو۔ مگر درحقیقت کسی کو پروا نہیں۔ نہ اس کائنات کو، نہ اس نظام کو، نہ ان لوگوں کو جن کے ساتھ ہم جذبات بانٹتے ہیں۔ سب کچھ محض وقتی دھوکہ ہے۔ جذبات صرف ایک مصنوعی عینک ہیں، جنہیں پہن کر ہم خود کو خوش فہم بناتے ہیں۔ مگر جس دن ہم ان عینکوں کو اتار دیں گے، شاید وہ پہلا دن ہو جب ہم سچ دیکھیں گے—اور وہ سچ بہت تلخ ہوگا۔

اس لیے جذبات کو نہ صرف مسترد کرنا چاہیے بلکہ ان پر شک بھی کرنا چاہیے۔ ان کی اصل حیثیت کو سمجھنا ہی وہ پہلا قدم ہے جو ہمیں خود فریبی سے نکال کر حقیقت کے قریب لے جا سکتا ہے۔ کیونکہ جب سب کچھ ختم ہو جائے گا، تو صرف حقیقت باقی رہے گی—نہ خوشی، نہ غم، نہ محبت، نہ نفرت—صرف ایک بے حس خاموشی، جو ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے