انصاف اور خودمختاری کا احترام: عالمی امن اور استحکام کا سب سے کشادہ راستہ

ذہن، زمین، وقت اور آزادی میں پنہاہ تمام دستیاب وسائل، صلاحیتیں اور مواقع انسانوں کے درمیان اللہ نے تکوینی نظام کے تحت تقسیم فرمایا ہے۔ اس نظام میں ایک ہمہ جہت توازن ہے، انصاف ہے، اشتراک ہے، انتظام ہے، ربط و ضبط ہے، حکمت ہے، دانائی ہے، خیر ہے اور یہ کہ وسیع ترین پیمانے پر موجود ایک ہمہ گیر مصلحت کار فرما نظر آ رہی ہے۔ اس پورے اہتمام میں عملی نقطہ نظر سے جو اہم ترین مقصد پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان سب باہمی تعامل میں رہ کر انہی خوبیوں کا ثبوت دیں جو دنیا کی تشکیل و ترتیب میں خود اللہ نے جن کا اہتمام فرمایا ہے یعنی دنیا میں رہ کر انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر توازن، انصاف، اشتراک، دانائی، ربط و ضبط، حکمت، خیر خواہی اور مصلحت کا مظاہرہ اپنے ہر ہر ارادے، ہر ہر عمل، ہر ہر قدم، ہر ہر سوچ، ہر ہر پالیسی اور یہ کہ ہر ہر منصوبے میں مطلوب ہے۔ اللہ کو مطلوب ہے کہ انسانی زندگی اور سماج میں بنیادی طور پر انصاف اور برابری کا دور دورہ ہو نہ کہ بالادستی اور استحصال کے خاطر سب کشمکش میں پڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے درپے رہیں۔ انسان کی فطرت انصاف اور برابری سے مطابقت رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے طویل تاریخ میں کچھ ذہنی اور بہت کچھ عملی پیچیدگیوں کے سبب حرص و ہوس کے ایک ایسے چکر میں سب پڑ گئے کہ جس نے ہر دور اور زمین کے ہر ٹکڑے کو حقیقی سکون، امن، اطمینان اور استحکام سے محروم کر رکھا ہے۔

پوری تاریخ میں انسان بالادستی کے لیے مسلسل کشمکش میں مصروف رہے ہیں۔ چاہے وہ جنگوں کی صورت میں ہو، نفرت و حقارت سے آلودہ رویے ہو، نوآبادیات کے چکر ہو، یا پھر اقتصادی تسلط جمانے کے لیے اختیار کردہ مختلف حربے۔ دراصل بالادستی، طاقت اور کنٹرول کی نامبارک خواہش، تاریخ کے ان گنت خونی دھاروں کی تشکیل میں ایک اہم محرک رہی ہے۔ اکثر و بیشتر اقوام اور افراد اس غلط فہمی میں مبتلا چلے آ رہے ہیں کہ دوسروں کی کمزوری میں ہماری طاقت ہے، دوسروں کی بدحالی میں ہماری خوشحالی ہے، دوسروں کی شکست میں ہماری فتح ہے اور یہ کہ دوسروں کے زیر نگیں رہنے میں ہماری بالادستی موجود ہے۔ یہ انسان کی سب سے بڑی خطا ہے جس میں زمانوں سے مبتلا چلا آ رہا ہے۔ تاہم، اب جیسی جیسی دنیا تیزی سے باہم جڑی اور گلوبلائز ہوتی جا رہی ہے، یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ دوسروں کی قیمت پر بالادستی کا حصول اب ایک پائیدار یا قابل عمل آپشن نہیں رہا۔ دنیا بھر میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے تجارتی، سفارتی، تعلیمی اور ثقافتی تعلقات قائم کر کے مشترک منصوبوں کا آغاز اور ہر طرح سے اپنے معاملات کو مساوی سطح پر رکھ کر چلانا اب اہم، موثر اور مفید ثابت ہو رہا ہے۔

اقوام عالم کے درمیان اب باہمی تعلقات کی استواری خودمختاری کے احترام کے ساتھ، لین دین کے معاملات برابری کی سطح پر اور مختلف معاشی اور اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے اشتراک، بطورِ اصول ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اس اصول کی روح سے ہم آہنگ ہو کر ایک دوسرے کو مساوی درجے میں سمجھ کر، اقوام اور ممالک تکبر، تشدد اور تسلط کے ان نقصانات سے بچ سکتے ہیں جو اکثر و بیشتر طرح طرح کے تنازعات اور تناؤ کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ جب قومیں برابری کی سطح پر جمع ہوتی ہیں، تو وہ نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے مختلف ثمر بار منصوبوں میں شریک ہو کر زیادہ کار آمد نتائج اور امکانات تک پہنچ جاتی ہیں، اور جس سے آگے چل کر مختلف تنازعات اور کشیدگیوں کا پرامن حل نکل سکتا ہے۔

مساوی سطح پر معاملات کا انتظام مقابلہ کی بجائے تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ جب اور جہاں بھی مختلف ممالک برابری کی بنیاد پر مل کر کام کرنے لگ جاتے ہیں، تو وہ اپنے وسائل اور مہارتوں کو مشترکہ تجارتی اور صنعتی اہداف کے حصول اور درپیش چیلنجوں مثلاً ماحولیاتی تبدیلیاں، غربت کی مصیبت، مہلک بیماریوں کی کثرت اور دہشت گردیوں سے نمٹنے کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے، قومیں اس سے کہیں زیادہ حاصل کر سکتی ہیں جس کو وہ جنگوں یا الگ الگ رہ کر حاصل کرنے کی امید نہیں کر سکتی۔

بین الاقوامی تعلقات میں مساوات اور برابری کے اصول کو اپنا کر، اقوام عالم ایک زیادہ منصفانہ، مشفقانہ، روادارانہ اور برادرانہ عالمی نظام تشکیل دے سکتی ہیں۔ جب مختلف ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مساوی سلوک کرتے ہیں، تو لامحالہ پھر ان میں انسانی حقوق کو برقرار رکھنے، ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنے، تعاون اور اشتراک کی روح اپنانے اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ذرہ سوچیے ایک ایسی دنیا کی تشکیل کس قدر اچھی منزل ہے جہاں تمام قوموں کے ساتھ عزت اور وقار کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہو، جہاں تنازعات اور ناانصافیوں کو کم کرنے کا ذہن پایا جاتا ہو، جہاں مختلف مشترک منصوبوں کو تکمیل سے ہم کنار کرنے کے لیے خود بخود دست تعاون بڑھتا رہے۔ یقین کریں صرف اور صرف اسی طرز فکر و عمل سے ایک زیادہ مستحکم، پائدار اور پُرامن دنیا بن سکتی ہے۔ آج انسان تاریخ کے ایک ایسے دور میں داخل ہو گیا ہے کہ جہاں اگر ایک دوسرے کو دوست سمجھ کر کام کیا جائے تو دائمی ترقی اور خوشحالی کا نتیجہ سب کے دسترس میں ہے اور اگر ایک دوسرے کو دشمن سمجھنا شروع ہو جائے تو یقین کریں ازلی و ابدی تباہی سب کے لیے چند قدم سے زیادہ دور نہیں۔

برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنے کا ایک اہم فائدہ اقوام عالم کے درمیان باہمی اعتماد اور خیر سگالی کا فروغ ہے۔ جب مختلف ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مساوی سلوک کرتے ہیں، تو ان کے درمیان باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر مثبت تعلقات استوار کرنے کا امکان زیادہ سے زیادہ بڑھتا ہے۔ اس ارادی سلوک سے ایک زیادہ مستحکم، پُرامن اور خوشحال بین الاقوامی ماحول بننے میں مدد مل سکتی ہے، جہاں اقوام عالم مشترکہ مفادات کے حصول کو ممکن اور درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹ سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا کا تصور ہے جہاں سفر آسان اور محفوظ ہو، جہاں شراکت کے مواقع موجود اور نفع بخش ہو، جہاں تعلقات کی استواری کو مطلوب اعتماد فراوانی سے دستیاب ہو، جہاں احترام اور رواداری مزاجوں کا لازمی حصہ ہو۔

آج کی دنیا بدقسمتی سے بہتری کے بے شمار امکانات کے باوجود چند بڑے خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جا بجا جنگیں جاری ہیں اور وہ تمام اسباب بھی جو جنگوں کو جاری رکھتے ہیں، بے شمار غلط فہمیاں ہیں جو دلوں اور ذہنوں کو کبیدہ خاطر رکھتی ہیں، طاقت اور تشدد کا بے تحاشا استعمال ہو رہا ہے، انسان، انسان کے نشانے پر ہے اور قوم، قوم کے نشانے پر۔ ایک کشمکش ہے جو چار دانگ عالم کا احاطہ کی ہوئی ہے۔ انسانوں کو اپنے بہترین مفاد کی خاطر ان چکروں سے باہر آنا پڑے گا ورنہ ایک ایسی تباہی پھیل جائے گی جس سے کسی کو بھی بچنا نصیب نہیں ہوگا۔ مساوی سطح پر تعلقات اور معاملات کا انتظام تنازعات اور تشدد کے خطرات کو کم کرنے میں ایک مؤثر مددگار عامل ہے۔ جب سب ممالک آپس میں مساوی سلوک اختیار کرتے ہیں، تو ان کا باہم ایک دوسرے سے خطرے کا احساس یا دشمنی سے جڑے احساسات ختم ہوتے ہیں اور یوں جارحیت یا جوابی جارحیت کے خدشات سر نہیں اٹھاتے۔ جدید دنیا میں، عالمی ترقی اور عمومی خوشحالی کے لیے ناقابلِ تصور امکانات اور مواقع دستیاب ہیں اگر بین الاقوامی تعلقات میں انصاف اور مساوات کو فروغ دے کر، قومیں مثالی امن، استحکام اور خوشحالی کے دور کا آغاز کر سکتی ہیں ایک ایسا دور جس میں تشدد اور طاقت کی بجائے سفارت کاری، افہام و تفہیم اور ثمر بار بات چیت کے ذریعے موجود تنازعات کو حل کیا جائے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اقوام عالم بالادستی کے لیے جاری کشمکش سے نکل کر برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے اور معاملات چلانے کا حوصلہ دکھائے تو ان شاءاللہ ہر جگہ امن و استحکام آئے گا، انصاف کا بول بالا ہوگا اور عمومی احترام اور تعاون کے لیے درکار فضاء بن جائے گی۔ یقین کریں ایک دوسرے کو برابر سمجھ کر، قومیں باہمی احترام، تعاون، انصاف، اعتماد اور امن کو فروغ دے سکتی ہیں اور ایک ایسی دنیا بسا سکتی ہیں جہاں تمام قوموں کے ساتھ عزت اور احترام کا سلوک کیا جاتا ہے، اس پالیسی سے تنازعات اور ناانصافیوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور ہاں اس سے سب کے لیے ایک زیادہ مستحکم اور پُرامن دنیا وجود میں آ سکتی ہے۔ اس شاندار منزل کا حصول ہم سب کی مشترکہ کوششوں پر منحصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے