جنت نظیر اپر دیر اور بدلتا ہوا موسم , ایک درد ناک مشاہدہ

کہتے ہیں بعض سفر انسان کو وہ سکھا جاتے ہیں جو کئی کتابیں نہیں سکھا سکتیں۔ مجھے بھی ایک ایسا ہی تجربہ اس عید پر ہوا۔ عید کے چوتھے دن میں اپر دیر گیا۔ بظاہر یہ ایک عام سا سفر تھا، مگر درحقیقت یہ ایک ایسے دکھ سے میری آنکھیں کھول گیا، جسے میں بچپن سے محسوس کرتا آ رہا تھا، مگر کبھی بیان نہ کر سکا۔

عید کے پچھلے دن میرے مامو کی شادی تھی، اور اُن کی شادی کی سادگی نے میرے دل کو چھو لیا۔ جہاں آج کل کے شہری علاقوں میں شادی بیاہ کے نام پر دکھاوا، اسراف اور مصنوعی چمک دمک کا رواج عام ہو چکا ہے، وہیں اپر دیر کے لوگ دل کے سچے، خلوص سے بھرے اور اپنی روایات کے پاسبان دکھائی دیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی سادگی میں زندگی کی اصل خوبصورتی چھپی ہے۔

مگر میں اس مضمون میں صرف شادی کا تذکرہ کرنے نہیں آیا، بلکہ ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ ہے اپر دیر کا بدلتا ہوا موسم اور اس کی خوبصورتی کا بتدریج زوال۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم گرمیوں میں اپر دیر جایا کرتے تھے، تو وہاں کی ہوا میں ٹھنڈک کا ایک خوشگوار لمس ہوا کرتا تھا۔ پہاڑوں سے بہتے چشمے، ٹھنڈی ہوائیں، جھاڑیاں، اور گھنے جنگلات — سب کچھ ایک خواب سا لگتا تھا۔ مگر اب جب میں دوبارہ گیا، تو کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ وہ ٹھنڈک جیسے وقت کی دھول میں کہیں کھو چکی ہو۔ ماحول میں وہ تازگی، وہ خنکی، وہ فطری حسن کہیں دھیرے دھیرے ماند پڑتا جا رہا ہے۔

ایک لمحہ ٹھہرا، میں نے اپنے دادا اور نانا کے گھروں کے قریب موجود چشمے کو چھوا۔ وہی چشمہ، جو بچپن میں میرے دل کو خوشی کی ایک نئی لہر دے جایا کرتا تھا، اب بھی ٹھنڈا تھا بلکہ اتنا ٹھنڈا کہ 30 سے 40 سیکنڈ سے زیادہ ہاتھ اندر رکھنا محال ہو جاتا۔ مگر دل کے کسی کونے میں ایک اداسی تھی۔ وہ سوچ جو ہر حسین چیز کے بچھڑنے سے پہلے انسان کے دل میں جنم لیتی ہے: "کیا یہ قدرتی ٹھنڈک، یہ خوبصورتی، یہ سب کچھ ایک دن ختم ہو جائے گا؟”

پھر میں دو بندوں نامی علاقے گیا، جو اپر دیر ہی کا ایک حصہ ہے، پہاڑوں میں چھپا ہوا، قدرت کا ایک نایاب تحفہ۔ وہاں بارشوں کا کوئی وقت مقرر نہیں — اچانک بادل آتے ہیں، برس جاتے ہیں، اور فضا کو ایک نئی تازگی عطا کرتے ہیں۔ لوگ محبت سے، اخوت سے جیتے ہیں۔ خواتین اور لڑکیاں ایک دن مقرر کر کے چشموں پر کپڑے دھوتی ہیں، ہنستی گاتی زندگی کی تھکن کو پانی میں بہا دیتی ہیں۔

وہاں ایک چشمہ ایسا بھی دیکھا، جس کے پانی کو صرف 10 سے 15 سیکنڈ تک ہی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ فطرت نے جیسے اپنی برفیلی سانس اس چشمے میں ڈال دی ہو۔ آنکھیں بند کرو، تو لگتا ہے جیسے جنت کے کسی کنارے پر کھڑے ہو۔

مگر جنت میں بھی دراڑیں پڑنے لگی ہیں…

یہی وہ لمحہ تھا جب میرے ماموں سے بات چیت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ان خوبصورت جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے۔ نیچے سے لوگ آتے ہیں، درختوں کی بے دردی سے کٹائی کرتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی، معاشی مجبوریوں کے تحت، کبھی کبھار اس جرم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہی درخت تو تھے جنہوں نے ان علاقوں کو سرد رکھا، صاف ہوا مہیا کی، اور پہاڑوں کی خوبصورتی سنبھال رکھی۔ اور اب یہی درخت، ایک ایک کر کے کاٹے جا رہے ہیں جیسے قدرت کے سینے پر کلہاڑی ماری جا رہی ہو۔

یہی درخت، یہی چشمے، یہی خنکی سب کچھ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے، اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

حکومت کی بے حسی اس مسئلے کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ اپر دیر میں باقاعدہ بجلی نہیں ہے۔ لوگ ٹربائن لگا کر چشموں کے پانی سے خود بجلی پیدا کرتے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، ہسپتالوں کا نام و نشان ندارد، اور تعلیم کا چراغ بجھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر حکومت تھوڑا سا بھی دھیان دے، تو یہ علاقہ پاکستان کے سیاحت کے لیے ایک سونے کی کان بن سکتا ہے۔

کیا یہ مقام ایسا نہیں جہاں انسان خود سے کہے:
"اگر جنت زمین پر ہے، تو یہی ہے، یہی ہے، یہی ہے!”

لیکن پھر ایک دل دہلا دینے والا سوال سر ابھارتا ہے:
"کیا ہم اپنی جنت کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں؟”

یہاں ہر وہ چیز موجود ہے جسے قدرت نے اپنی خاص عنایت سمجھ کر عطا کیا مگر ہم انسان، اپنی لاپرواہی، لالچ، اور بے حسی سے اسے روز بروز ختم کر رہے ہیں۔

یہ مضمون، یہ مشاہدہ، اور یہ سوچ سب کچھ ایک پکار ہے، ایک سوال ہے، ایک صدا ہے:
"کیا ہم اپنے بچوں کو بھی یہی حسن دے سکیں گے؟ یا صرف تصویریں، یادیں اور حسرتیں؟”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے