جب اسرائیل نے 13 جون 2025 کو ایران پر حیرت انگیز فضائی حملے (surprise aerial strikes) کیے، تو ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو گذشتہ ہفتے غیر متوقع شدت کے ساتھ جاری رہی۔ ابتدائی طور پر ایران اچانک حملے اور جرنیلوں کی ہلاکت سے سکتے میں آگیا تھا۔ اس لیے ایران نے ابتدا میں اپنی پرانے میزائل اسٹاک (aging missile stockpiles) سے جواب دیتے ہوئے ایک ایسے تاثر کو جنم دیا کہ اس کا ردعمل صرف پُرانی تکنیکی صلاحیتوں تک محدود رہے گا۔ تاہم، انہی پرانے میزائلوں نے اسرائیل کے مضبوط سمجھے جانے والے فضائی دفاعی نظام (air defense systems) کو چیلنج کیا اور اہم سٹریٹیجک تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔
لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران، تہران نے ایک ایسا مخفی ہتھیار (mystery weapon) پیش کیا جو اس کے سابق ذخیرے سے مختلف اور اب تک منظرِ عام پر نہ آیا۔ اس کا شاندار پلازما شعلہ (plasma trail)، بے قاعدہ پرواز راستہ (erratic trajectory)، اور گنجلک ریڈار سگنیچر (radar signature) نے مغربی اور اسرائیلی ماہرین کو حیران کر دیا۔ کچھ اس کو ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل (hypersonic glide vehicle یا HGV) کا نام دے رہے ہیں، اور کچھ کا ماننا ہے کہ یہ جدید منیورایبل بیلسٹک میزائل (maneuverable ballistic missile) ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک کوئی متفقہ رائے (definitive consensus) سامنے نہیں آئی، ایران نے نہ اس کی لفظی شناخت بتائی اور نہ ہی تکنیکی وضاحت دی۔ اس تاحال نامعلوم حکمتِ عملی نے اپنے اندر ایک نفسیاتی اثر (psychological impact) بھی پیدا کیا ہے۔ ایرانی سوشل میڈیا پر قیاس ہے کہ حالیہ لانچ کیا گیا ‘مسٹری میزائل’ یا تو سجیل ہے یا اس کی جدید تر شکل ہے۔ سجیل، ٹھوس ایندھن والا بیلسٹک میزائل، ایرانی انجینیئر حسن تهرانی مقدم کا تخلیق کردہ ایک شاہکار تھا، جو انہوں نے اپنی موت سے تین سال قبل یعنی 2008 میں بنایا تھا۔ اس میزائل کے بارے میں ایک مغربی جریدے نے مارچ میں لکھا تھا کہ یہ نفسیاتی حربہ ہے مگر اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہائپرسونک میزائل ایرا-اسرائیل جنگ کو نیا موڑ دے سکتا ہے۔
پرانے میزائلوں سے جدید ہتھیاروں تک
جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایران نے روایتی نظاموں جیسے شاہب-3 (Shahab‑3)، قیام-1 (Qiam‑1)، قدر (Qadar)، اور پہلے درجے کے خرمشہر (Khorramshahr) میزائلوں پر انحصار کیا۔ لیکن اس ہفتے ایران نے اپنی سٹریٹیجک پوزیشن میں نئی بنیادی تبدیلی دکھائی۔ ٹھوس ایندھن پر مبنی میزائل جیسے دزفول (Dezful) اور رعد‑500 (Raad‑500) میدانِ جنگ میں متحرک کر دیے گئے۔ نئی نسل کا فتح-کلاس (Fattah-class) میزائل، جسے ہائپرسونک خصوصیات کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، پہلی بار جنگی صورتِ حال میں استعمال ہوا۔ علاوہ ازیں، ایران نے جدید ڈرون (drone) نظام کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے، بشمول شاہد‑238 (Shahed‑238)، مہاجر‑10 (Mohajer‑10)، اور آرش (Arash)، جو اسرائیل کے فضائی دفاع (air defenses) کو عبور کر کے اندرونِ ملک نشانہ بنانے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
اس مہم نے صرف اسرائیلی ریڈار مراکز یا کمانڈ مراکز تک محدود رہنے کے بجائے خلیجی امریکہ فوجی اڈوں (U.S. military bases in the Gulf) کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے—خاص طور پر الْعُدید (Al‑Udeid) قطر، الظفرہ (Al‑Dhafra) متحدہ عرب امارات، اور بحیرۂ عرب میں امریکی بحریہ (U.S. naval units) وغیرہ بھی اب خطرے میں ہیں۔
ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی پر ماہرین کی رائے
اس ہفتے جو نیا مسٹری میزائل (mystery missile) لانچ ہوا ہے اس نے جنگ میں ٹیکنالوجیکل غیر یقینی (technological ambiguity) کی ایک نئی سطح کو متعارف کروایا ہے۔ اس کی ابتدائی حرکت پذیری (maneuverability)، تیز رفتاری (velocity)، اور ریڈار سے گریز (radar evasion) نے مغربی تجزیہ کاروں کی توقعات سے آگے کا راستہ دکھایا۔ امریکہ اور برطانیہ کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار وہ تمام خصوصیات رکھتا ہے جو ہائپرسونک (hypersonic) ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوتی ہیں: انتہائی رفتار، ریڈار سے بچاؤ، اور پرواز میں سمت کی تبدیلی۔
رائل یونائٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (RUSI) کے دفاعی تجزیہ کار جیک واٹلنگ (Jack Watling) نے کہا:
“If it is a hypersonic glide vehicle, radar has less time to detect it—making interception harder.”
(اگر یہ ہائپرسونک گلائڈ وہیکل ہے تو ریڈار کے پاس اسے پکڑنے کے لیے کم وقت ہوتا ہے، جس سے اسے روکنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔)
دوسری جانب، واشنگٹن کے تھنک ٹینک، فاؤنڈیشن فار ڈفیبس آف ڈیموکریسی سے وابستہ بہنام بن تلبلو (Behnam Ben Taleblu) محتاط انداز رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
“Iran’s progress in maneuverable re-entry vehicles shouldn’t be ignored—they complicate defenses.”
(ایران کی متحرک ری انٹری وہیکلز (Maneuverable Re-entry Vehicles) میں پیش رفت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے — یہ دفاعی نظاموں کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔)
یہ مغربی ماہرین ایران کے بارے میں فراخدل یا مثبت رویہ نہیں رکھتے ہیں، لیکن جب وہ بھی ایران کی جدید پیش رفت کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ ایک سنجیدہ اور سٹریٹیجک تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایران کی ٹیکنالوجیکل اور صنعتی خودکفالت
ایران کی ٹھوس ایندھن پر مبنی میزائلوں کی طرف منتقلی محض ایک تکنیکی انقلاب نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک چھلانگ ہے۔ یہ میزائل لانچ کرنے میں آسان ہیں اور ان کے لیے کسی طویل تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دفاعی امور کی ماہر اور ایران کے میزائلوں پر تحقیق کرنے والے فابیان ہِنز (Fabian Hinz) نے انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں کہا:
“If you have the Israeli Air Force overhead hunting for launchers, you really want a system that allows you to launch with minimal preparation and get away as quickly as possible.”
(اگر اسرائیلی فضائیہ (Israeli Air Force) اوپر فضاء سے زمنین پر لانچر تلاش کر رہی ہو، تو آپ یقیناً ایسا نظام چاہیں گے جو کم سے کم تیاری کے ساتھ میزائل داغنے کی اجازت دے اور آپ کو فوراً لانچرز وہاں سے ہٹا دینے کا موقع فراہم کرے۔)
اس کے علاوہ ایران نے موبائل ٹرانسپورٹر اریکٹر لانچرز (transporter erector launchers)، جعلی لانچرز (decoy launchers)، اور زرگروس پہاڑوں (Zagros Mountains) میں زیرِ زمین ڈھیر سارے سائلوز (silos — عمودی کنویں) بنا رکھے ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر میں “میزائل والے زیر زمین شہروں” (missile cities) کے وجود کا ثبوت ملا ہے جن میں خودکار لانچنگ نظام موجود ہیں۔ مارچ 2025 میں ایک پینٹاگون کے ایک مشیر (Pentagon advisor) نے اعتراف کیا کہ ایران کے یہ “میزائل فارمز” پوشیدہ اور منظم لانچنگ کے ذریعہ دشمن کے دفاعی نظاموں کو بے اثر کر سکتے ہیں۔
بلاشبہ اسرائیلی کے ایرانی میزائل تنصیبات اور کمانڈ مراکز پر فضائی حملوں کے باوجود، ایران مسلسل نئے میزائل متعارف کروا رہا ہے—یہ اس کی مستقل صنعتی خودمختاری (industrial autonomy) کا علامتی ثبوت ہے۔ 2020 سے پہلے ہی ایران کے پاس ٹھوس پروپیلنٹ (solid‑propellant) راکٹس اور خلائی لانچنگ سسٹمز کے کامیاب تجربات موجود تھے جنہوں نے خود انحصاری پیداوار کی بنیاد رکھی۔
غیر ملکی ٹیکنالوجی کا کردار
مغربی تجزیہ کاروں کے لیے جو سب سے بڑا تشویش کا باعث ہے کہ انھیں ایران کے میزائل کی ٹیکنالوجی کی اصلیت ابھی تک انھیں معلوم نہیں ہے۔ اگرچہ روس یا چین کی جانب سے براہ راست معاونت یا شرکت کا پتا نہیں چل سکا ہے، تاہم اس کی ترقی نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ ممکنہ طور پر ایسا تعاون کسی نہ کسی سطح پر موجود ہو—خواہ ایویونکس، سیٹلائٹ گائیڈنس، یا مشترکہ ایندھن نظام (dual-use propulsion systems) کی شکل میں یا کسی اور شکل میں۔ اگر بیجنگ (Beijing) یا ماسکو (Moscow) نے ایران کو ریئل ٹائم انٹیلیجنس (real-time intelligence)، سائبر فضائی حربے (cyberwarfare tools)، یا سٹیلائیٹ انٹیلیجنس، سروییلنس، اور ریکانائسنس (stealth ISR) سپورٹ فراہم کر دی، تو ایران کی جنگی صلاحیت میں زبردست اضافے کا امکان ہے۔ تاہم موجودہ صلاحیت بھی دنیا کو ورطۂِ حیرت میں ڈال رہی ہے۔
ایران کی مسلسل میزائل ٹیکنالوجی کی پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے پابندیوں کے باوجود طویل المدت بحران کے لیے تیاری کر رکھی تھی—ایک خود کفیل سپلائی چین، ملک گیر پیداوار، اور چین و روس کے ساتھ پائیدار مشترکہ تحقیق نے اسے عملاً صنعتی ترقی دے دی ہے۔ اگر یہ تعاون صرف سائنسی اور اکیڈمک سے زیادہ کھلے عملی تعاون میں تبدیل ہو جائے تو جنگ ایک نئے خطرناک مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
امریکی دباؤ اور سٹریٹیجک خطرات
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے چھٹے مہینے میں ہیں، اور وہ اسرائیل اور امریکی سیاسی حلقوں سے دباؤ کا نشانہ بن رہے ہیں تاکہ وہ ایران کے فوردو ایٹمی پلانٹ (Fordow nuclear facility) پر ممکنہ حملہ کریں۔ ابھی تک مغربی طاقتوں کو فردو پلانٹ کی صحیح گہرائی کا بھی علم نہیں ہے، قیاس ہے کہ یہ 80 میٹر سے 100 میٹرز تک گہرا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ خود جنگ میں شامل ہو بی2 بمبار سے مسلسل بمباری کرے، محض اسرائیل کی سپورٹ کرنا کافی نہیں۔ اس کے باوجود کچھ امریکی تجزیہ کار ریسٹرینٹ یا ضبط کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ولی نصر (Dr. Vali Nasr)، جو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی کمانڈ، سینٹکام (CENTCOM) کے مشیر بھی ہیں، نیو یارک ٹائمز میں لکھتے ہیں:
“A United States intervention now would be far more consequential than the invasion of Iraq. Iran is battle-hardened, fortified, and prepared for multi-domain resistance.”
(امریکہ کی جانب سے اس وقت مداخلت، عراق پر حملے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین نتائج کی حامل ہوگی۔ ایران ایک جنگ آزمودہ، مضبوط قلعہ بند اور کثیر جہتی مزاحمت کے لیے پوری طرح تیار ریاست ہے۔)
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ اب صرف خطے پر امریکی برتری قائم کرنے کی نہیں ہے بلکہ امریکہ کی عالمی شہرت، فوجی قوت، اور خطے میں اس کے کردار کا سوال ہے۔
جنگ کا نیا حساب کتاب
ایران کے اس نئے، اور حیرت میں ڈال دینے والے مخفی میزائل کے انکشاف نے جنگ کی نوعیت تبدیل کر دی ہے اور اس جنگ کی نفسیاتی جہت کو پہلے سے کہیں زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس جنگ میں روس یا چین نے براہ راست حصہ نہیں لیا، مگر ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ طویل مدتی، ٹیکنالوجی پر مبنی جنگی صلاحیت سے لیس ہے۔ اگر اسے کھلی حمایت ملتی ہے، تو یہ پوری انسانی تاریخ میں ایک تاریخی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسی بھی خبریں آئی ہیں کہ ایران نے اسرائیل کے F-16 اور F-35 رائٹرز گرائے ہیں تاہم ان خبروں کی حتمی تصدیق ابھی ہونا باقی ہے۔ یہ سب واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ ایران کی زمبیل میں کافی کچھ ہے۔
امریکی بحری بیڑے بطخیں ہیں
امریکی مداخلت کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے، امریکہ نے قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات (United Arab Emirates) میں واقع اپنے فوجی اڈوں سے جنگی سازوسامان خلیج فارس (Persian Gulf) میں تعینات کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ مکمل طور پر طیارہ بردار بحری بیڑوں (aircraft carriers) اور تباہ کن جنگی جہازوں (destroyers) پر لدے ہوئے ہیں، اور اطلاعات کے مطابق یہ ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی اور بحری حملے کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ تاہم، امریکی عسکری ماہرین ممکنہ طور پر تہران کی طویل مدتی آبدوز جنگی صلاحیتوں (undersea capabilities) کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ سن 2006 میں، ایران نے “حوط” (Hoot) نامی ایک سپرکیویٹیشن (supercavitation) ٹارپیڈو کا تجربہ کیا تھا—یہ ایک انتہائی تیز رفتار ہتھیار تھا جو تقریباً 360 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پانی کے اندر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دعوے کی تصدیق متعدد فوجی مشقوں میں ہوئی اور اسے بی بی سی (BBC) اور ریڈیو فری یورپ (Radio Free Europe) جیسے ذرائع نے رپورٹ بھی کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی بحری بیڑے ایرانی میزائلوں کے سامنے بیٹھی ہو بطخیں ہیں۔
اگرچہ مغربی تجزیہ کاروں نے ایران کے اس دعوے پر شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ ٹارپیڈو مکمل طور پر غیردیدنی (stealth) ہے، تاہم وہ اس بات پر متفق تھے کہ سپرکیویٹیشن ٹیکنالوجی (supercavitation technology) اسے روایتی سونار (sonar) نظام سے تقریباً ناقابلِ سراغ بناتی ہے۔ خلیج فارس کی محدود اور نسبتاً کم گہرائی والی پانیوں میں یہ صلاحیت امریکی بحری آلات کو شدید خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔
جیمز لیمسن (James Lamson)، جو کنگز کالج لندن (King’s College London) میں ایران کے میزائل پروگرام کے محقق ہیں، نے اپنے انٹرویوز میں زور دیا ہے کہ ایران کا عسکری نظریہ اضافی نظاموں اور تنوع (redundancy and diversification) پر مبنی ہے۔ اگرچہ لیمسن ایران کی جوہری نیت (nuclear intent) کا کوئی دعویٰ نہیں کرتے، تاہم وہ اور فیبین ہنز (Fabian Hinz) دونوں اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ایران کی حکمتِ عملی کا مرکز یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے برتر دشمنوں کو روکنے کے لیے ایک کثیر جہتی (multi-domain)، تہہ دار میزائل (layered missile system) اور ڈرون نیٹ ورک تشکیل دے—جس کی تکمیل بحری اور سائبر صلاحیتوں (naval and cyber capabilities) سے کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے، تہران کی حکمتِ عملی امریکہ کی عسکری طاقت کی نقل نہیں، بلکہ اپنی جغرافیائی ساخت، بقاء کی صلاحیت، اور غیرمتوقع حربی طرزِعمل کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔
تل ابیب، واشنگٹن اور ان کے اتحادیوں کے سامنے اب یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا وہ ایران کو عسکری طور پر شکست دے سکتے ہیں—یا یہ جنگ اتنی پیچیدہ ہو گئی ہے کہ یہ سوال ہی بے معنی ہے۔ ایران کا نظریاتی عزم (انقلابی روح)، فوجی خودمختاری، اور ٹیکنالوجیکل ترقی اسکے دفاع کو ناقابلِ شکست بناتے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ:
ایران ضرور بھاری قیمت ادا کرے گا — اس کی معیشت دباؤ میں ہے، شہروں پر بم برس رہے ہیں، اور عوام مسلسل صبر و استقامت کی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا اس قوم نے کبھی کم قیمت دی ہے؟ غزّہ کے شہداء کی روحیں اب ایرانی نوجوانوں کے دلوں میں زندہ ہو چکی ہیں، اور عشرۂ محرم کی آمد اس جذبے کو ایک نئی روح بخشنے والی ہے — وہ محرم جو مظلوم کی فتح اور ظالم کی شکست کا ازلی استعارہ ہے۔
لیکن جو ایران کے دشمن ہیں، وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ وہ صرف ایک ریاست سے نہیں، ایک نظریے سے ٹکرا گئے ہیں۔ وہ نظریہ جو جب بھی دبایا گیا، اور بلند ہو کر ابھرا۔ اب کی بار، ایران تنہا نہیں — وہ اپنی تاریخ، اپنی مزاحمت، اور اپنی ٹیکنالوجی کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ جنگ اب کسی روایتی قاعدے قانون کی پابند نہیں رہی — اب کوئی کسی کا لحاظ نہیں کرے گا۔ اب یہ ایک ایسی جنگ بن چکی ہے جسے انگریزی میں کہتے ہیں: “No-holds-barred war” — یعنی وہ جنگ جس میں کوئی قاعدہ باقی نہیں، کوئی حد مسلم نہیں، اور کوئی رحم کی توقع باقی نہیں رہی۔ اب جو قیمت ایران کے دشمن چکائیں گے، وہ دس گنا زیادہ ہوگی — سیاسی بھی، عسکری بھی، اور نفسیاتی بھی۔
تو کیا “ڈیل میکر” امن قائم کرے گا یا اسرائیل کے لیے ایٹم بم کا سوچے گا؟ کیا “ڈیل میکر” انسانی تاریخ کی تباہ کُن جنگ کا سوداگر بننے جا رہا ہے؟