انسان، یہ محض گوشت اور ہڈیوں سے بنی ایک مشین نہیں بلکہ ایک حیرت انگیز راز ہے جو صدیوں سے عقل، فلسفہ اور سائنس کا موضوع رہا ہے۔ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ زندگی کا مفہوم کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر نہ صرف سائنس دانوں نے تحقیق کی، بلکہ مذہبی پیشواؤں، فلاسفروں اور شاعروں نے بھی اپنی فکر سے روشنی ڈالی ہے۔
سائنس کی روشنی میں، زندگی کا آغاز زمین پر تقریباً ساڑھے تین ارب سال پہلے ہوا۔ ارتقائی نظریہ کے مطابق، ابتدائی خلیوں سے ارتقا ہوتا ہوا انسان کے موجودہ روپ تک کا سفر لاکھوں برس پر محیط ہے۔ چارلس ڈارون کا کہنا تھا:
"Survival of the fittest isn’t merely about strength, but about adaptation.” انسان نے اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھ کر ترقی کی، سوچنے، بولنے اور خود کو اظہار کرنے کی صلاحیت نے اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز بنایا۔
تاہم، صرف سائنسی نقطۂ نظر انسان کی حقیقت کو مکمل طور پر بیان نہیں کرتا۔ روحانی نقطۂ نظر میں، انسان کو ایک عظیم مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا۔ قرآن میں ارشاد ہے: "وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ” (اور تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں)ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟)
مختلف فلسفۂ حیات میں بھی انسان کی اہمیت کا تذکرہ موجود ہے۔ ارسطو نے کہا تھا: "Man is by nature a social animal.” یعنی انسان کی فطرت میں تعلق، محبت اور ربط شامل ہے۔ جب وہ تنہا ہوتا ہے، تو اس کی شخصیت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ یہی تعلق اسے انسانی بناتا ہےکسی کے غم میں شریک ہونا، کسی کی خوشی میں مسکرانا، یہ سب اس کے وجود کا جزوِ لازم ہے۔
زندگی کا مقصد صرف جینا نہیں، بلکہ "کیوں جینا ہے؟” کا جواب تلاش کرنا ہے۔ یہ جستجو ہی انسان کو باقی مخلوقات سے منفرد بناتی ہے۔ خلیل جبران لکھتے ہیں: "Your living is determined not so much by what life brings to you as by the attitude you bring to life.” انسان کی سوچ، اس کی نیت، اور اس کا عمل اسے اپنے مقدر کا معمار بناتے ہیں۔
آج جب ہم ترقی یافتہ ٹیکنالوجی، سائنس اور فلکیات کے ذریعے کائنات کی گہرائیوں میں جھانکنے کے قابل ہو گئے ہیں، تب بھی سب سے بڑا سوال وہی ہے جو آغاز میں تھا”میں کون ہوں؟” شاید یہی سوال ہمیں سوچنے، سیکھنے اور جستجو کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جو کائنات میں اپنا مقام نہ صرف تلاش کرتا ہے، بلکہ تخلیق بھی کرتا ہے۔