فنکار کی الجھن اور لوگوں کا رویہ

حسیب : "ارے واہ! وہ تو نہایت عمدہ آرٹسٹ ہے۔ اس کے ہاتھ کی صفائی اس کے کام میں جھلکتی ہے!”

حسیب (کچھ دیر بعد) : "کیا وہ واقعی ایک آرٹسٹ ہے؟ مجھے یقین نہیں آتا۔ کیا یہ کام اُس کا ہے؟ شاید یہ کسی اور کا فن ہو…”

صائم : "وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اسے کوئی اور کام کرنا چاہئے۔ آرٹ سے کیا فائدہ؟”

ان جملوں کے شور میں، ایک آرٹسٹ کا دل چپ چاپ بول اٹھا…

کبھی تعریف، کبھی شک،
کبھی تحسین، کبھی تذلیل۔
کیا میرا فن واقعی قابلِ تعریف ہے؟
یا میں فقط رنگوں کی حسین وادیوں میں بھٹک کر اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں؟

سچ تو یہ ہے کہ فن مجھے سکون دیتا ہے وہ سکون جو کسی دعا کی مانند ہوتا ہے لیکن میں صرف سکون سے تو زندہ نہیں رہ سکتا… مجھے پیسے بھی چاہئیں ،میں آرٹ کرنا چاہتا ہوں لیکن نوکری ،پیسے اور لوگوں کی تنگ نظری کا کیا کروں۔

وہ لمحہ، جب میں خالی کینوس کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں،
اور برش میری روح سے بات کرتا ہے
تب دنیا کی ہر آواز دب جاتی ہے،
اور صرف میرے دل کی آواز باقی رہتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جو مجھے زندہ رکھتا ہے۔

ہر فنکار اس دور میں سوالوں، الجھنوں اور تنقید کے کانٹوں سے گھرا ہوتا ہے۔
وہ اکثر خود سے پوچھتا ہے:
کیا پیسہ سکون سے زیادہ اہم ہے؟
کیا فن واقعی وقت کا ضیاع ہے؟

لیکن فن، صرف رنگوں کا کھیل نہیں
یہ وہ زبان ہے جو وہاں بولتی ہے جہاں الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ آزادی ہے جو انسان کو اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کی اجازت دیتی ہے۔

اکثر فنکار اپنی تخلیق مکمل کر لیتا ہے،
مگر اس کی الجھنیں، اس کے سوال، اس کے اندر باقی رہتے ہیں۔
وہ دنیا سے لڑتا ہے… اور کبھی کبھار خود سے بھی۔

مگر سچا فنکار وہی ہوتا ہے جو اپنے فن سے وفادار رہتا ہے۔
جو دنیا کی تنقید، وقت کی تنگی، اور پیسے کی کمی کے باوجود
اپنے دل کی آواز سنتا ہے — اور اس آواز کو رنگوں، لفظوں یا سروں میں ڈھال دیتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ ہر شک، ہر سوال،
اسی کی تخلیق کو مزید سچا، مزید گہرا اور مزید زندہ بناتا ہے۔

آخرکار، ایک دن جب دنیا خاموش ہو جائے گی،
تب فن بولے گا
اور سچائی رنگوں میں روشن ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے