مجھے نہیں معلوم کہ لندن کا ہیتھرو ایئرپورٹ دنیا کے بڑے ہوائی اڈوں میں کتویں نمبر پر ہے، لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ وہاں کی سہولیات، چہل پہل، رونق، اور مسافروں کے لیے احترام یہ سب شاید دنیا کے کسی اور ایئرپورٹ پر اس طرح یکجا نہ ہوں۔
لمبی قطاریں منظم انداز میں رواں، ہر جگہ واضح نشانات، ہدایات، مترجم، سہولت کار، ویل چیئر پر موجود بزرگ، یا بچوں کے ہمراہ والدین ہر ایک کے لیے الگ تربیت یافتہ، خوش اخلاق عملہ موجود۔ ایئرپورٹ کسی مقامِ روانگی کی بجائے ایک خوشگوار تجربہ، ایک پکنک پوائنٹ محسوس ہوتا ہے۔
خودکار امیگریشن گیٹس
مخصوص زونز
بچوں کے کھیلنے کے مقامات
معذور افراد کے لیے مکمل سہولیات
چوبیس گھنٹے کھلے کیفے
سستی بسیں اور ٹرینیں
کامل صفائی اور تازہ مہک
پھر استنبول پہنچے۔ استنبول ایئرپورٹ تو جیسے ایک آباد شہر ہو! باتھ رومز صاف اور خوشبو دار، ہر دو قدم پر روشن و مزین دکانیں، چمچماتے سروس کاؤنٹرز، مستعد اور صاف ستھرا عملہ، تمباکو نوشوں کے لیے الگ ایئرکنڈیشنڈ سموکنگ ایریا۔ نظم و ضبط ایسا کہ حیرت ہویہ مشرق ہے یا مغرب؟
اور پھر جیسے ہی کراچی ایئرپورٹ پر قدم رکھا، وطن واپس پہنچنے کی خوشی تو تھی، مگر ایئرپورٹ کی حالت دیکھ کر دل بیٹھ سا گیا۔ ماحول میں ایک بیزاری، تھکن اور لاچاری سی رچی بسی تھی۔ فرش پر گندگی، دیواروں پر بوسیدہ پینٹ، اور عملہ چہرے سے مسکراہٹ غائب، جیسے سب کو سزا کے طور پر وہاں بٹھا دیا گیا ہو۔ نہ کسی کا یونیفارم سائز کے مطابق، نہ استری شدہ۔
ایک اہلکار سے سموکنگ ایریا کا پوچھا تو جواب ملا: "واش روم چلے جائیں۔”
واش روم میں مسافروں کے بجائے عملے کے چند افراد، سگریٹ کے کش لیتے مزے میں کھڑے تھے۔
بین الاقوامی معیار کی دکانیں یا ریستوران مفقود۔
سوال یہ ہے کہ ہم ان عمارتوں پرجو دنیا کے سامنے ہمارے ملک کا چہرہ بنتی ہیں دماغ اور پیسہ کیوں نہیں لگاتے؟ جب وزرا، افسران، اور وڈیرے اپنے ذاتی محلات بناتے ہیں ان میں جو باریکی اور وژن نظر آتا ہے وہ سرکاری عمارتوں خصوصاً ہوائی اڈوں کی بات آتی ہے تو کہاں روپوش ہو جاتا ھے؟
اپنی ہی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے کیوں خفت محسوس ہوتی ہے؟ کیا اتنا ھی مشکل ہے کہ ہم ایک صاف ستھرا، منظم، باوقار اور انسان دوست ایئرپورٹ مہیا کر سکیں؟
دنیا کے کسی بھی ملک میں ایئرپورٹ وہ پہلا تاثر ہوتا ہے جو وہاں قدم رکھنے والا فرد لیتا ہے۔
معذرت کے ساتھ، جو دماغ اور وسائل ہم پارلیمنٹ ہاؤس، پرائم منسٹر ہاؤس، اور پریزیڈنسی کی تزئین و آرائش پر خرچ کرتے ہیں، اس کا آدھا بھی اگر بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر لگا دیں تو ملک کا چہرہ کچھ اور ہی ہوگا۔
کہیں تو اپنے ملک کی عزت رکھ لو…
سول ایوی ایشن، اور پی آئی اے سے گزارش ہے کہ کم از کم اپنے عملے کو ناپ کے مطابق نیا یونیفارم تو مہیا کردیں، اجڑے ہوئے، رنگ اڑے، بدنما یونیفارم… بہت زیادہ بُرے لوگ رہے ہیں۔