پروفیسر دانی کی یاد میں، ٹیکسلا بیٹھک

20 جون کی گرم صبح میں ٹیکسلا میوزیم پہنچا، جہاں ٹیکسلا میوزیم، ٹیکسلا بیٹھک اور گندھارا ریسورس سنٹر آف پاکستان ٹیکسلا نے باہمی اشتراک سے ماہر تاریخ، بشریات اور آثارِ قدیمہ پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک بیٹھک سجا رکھی تھی. اس بیٹھک میں مقررین نے پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی کی زندگی، خدمات اور یادوں کا تفصیلی تذکرہ کیا.

پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی کے حوالے سے اگر میں یہ کہوں کہ برصغیر بالعموم اور خطۂ پاکستان بالخصوص، اُس کی خدمات کا مقروض ہے تو یہ غلط نہ ہو گا. آگرہ کا تاج محل ہو یا چکوال کا کٹاس راج. اس خطے کی عظیم الشان تاریخ کا عظیم الشان تاریخی ورثہ، جس حیثیت اور اہمیت کے ساتھ، اس خطے کے باسیوں کے پاس، آج موجود ہے، اس میں بہت بڑا کردار اس شخصیت کا ہے جس کا نام پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی ہے.

غالب کے ذہن میں جب یہ سوال پیدا ہوا کہ جب انسان ہی ،انسان اور انسانیت کا دشمن بن چکا ہے، یہ اپنے ہی بنی نوع کی ہڈیاں چبا رہا ہے، انسان کی سوچ اور عمل سے، انسان اور انسانیت سہم جاتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ ابھی تک قیامت برپا نہیں ہو رہی، صور نہیں پھونکا جا رہا؟ تو اس سوال کا جواب غالب کو یہ ملا کہ دنیا میں ابھی بنارس موجود ہے. جہاں لوگ بے لوث اور بے غرض محبت کرتے ہیں، سلام کرتے ہیں، دعا دیتے ہیں. اسی لیے غالب نے بنارس کو چراغ دیر کہا تھا. لہٰذا جو انسان بنارس میں پیدا ہوا ہو، اُس نے تعلیم بنارس سے حاصل کی ہو، اُس پہ لازم تھا کہ اُس نے پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی ہی بننا تھا، وہ کچھ اور نہیں بن سکتا تھا.

خدا نے اُسے پتھر شناس دل دے رکھا تھا. اُس نے پتھروں سے محبت کی، وہ پتھروں سے ہم کلام ہوا اور جب وہ پتھروں سے ہم کلام ہوا تو جو کچھ پتھروں نے اسے بتایا، اسے اس نے اپنے قلم کے ذریعے کتابوں کی ذینت بنایا، تو کتابیں آئینہ بن گئیں اور اُس آئینے میں اِس خطے کے باسیوں کو اپنے گزرے پانچ ہزار سال دکھنے لگے.

میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی بڑی اور عظیم شخصیت کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کا سلیقہ اور طریقہ محض اُس کا یوم پیدائش اور یوم وفات منانا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کے، صحیح سلیقہ اور طریقہ یہ ہے کہ جس سوچ، نظریے، کاز یا مشن پر کام کر کے وہ شخصیت عظیم شخصیت بنی، اُس کاز اور مشن کو اپنی ذاتی صلاحیتوں، خوبیوں، قوتوں اور توانائیوں کے زریعے آگے بڑھایا جائے اور مضبوط کیا جائے.

پروفیسر دانی نے کہیں کہا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر کئی تہذیبوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں، جنہیں سمجھنا اور محفوظ کرنا، ہماری ذمہ داری ہے.

لہذا پروفیسر دانی کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ اور سلیقہ یہ ہے کہ پروفیسر دانی نے جس ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا ہے، اسے پورا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جائے اور جو پورا کر رہے ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے