کاش جدائی نہ ہوتی (مصعب کے لیئے ایک کالم)

پرندے بھی ایک دن اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھونسلوں سے اُڑ جاتے ہیں۔ واپس پلٹیں یا نہ پلٹیں، یہ فطرت کے اصولوں میں لکھا ہے۔ انسان بھی انہیں اصولوں کے تابع ہے۔ بچے جوان ہوتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں، اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے وطن کی مٹی، ماں کی گود اور باپ کی چھاؤں سے نکل کر بہت دور نکل جاتے ہیں۔ پڑھائی ہو یا روزگار، انہیں جانا ہی ہوتا ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، دل میں دعائیں اور لبوں پر مسکراہٹ، کیونکہ بچوں کے سامنے رویا نہیں جاتا۔

یہ لمحہ… یہ جدائی کا لمحہ… گویا دل پر چاقو چل گیا ہو… اور اس چاقو کی دھار پر خاموشی سے خون بہتا رہے… نہ آواز آئے، نہ کسی کو دکھائی دے۔ بس اندر ہی اندر، ہر لمحہ، ہر سانس کے ساتھ ایک زخم تازہ ہوتا رہے۔

ویڈیو کالز، واٹس ایپ… سب کچھ موجود ہے… آواز سنائی دیتی ہے، چہرہ دکھائی دیتا ہے… مگر گلے نہیں لگایاجا سکتا، گال پر بوسہ نہیں دیا جا سکتا، ماتھے کو چوما نہیں جا سکتا۔۔۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کی تمام سہولتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ ماں کے آنچل کی خوشبو اور باپ کے ہاتھ کی شفقت کی کوئی ایپ اب تک نہیں بنی۔

کاش جدائی کا وجود ہی نہ ہوتا، ہمارے بچے ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے، ہمارے مرنے تک۔ ہم ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے کھاتے، وہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہتے، ہمارے ساتھ ہی گھومتے پھرتے۔ الگ نہ ہونا پڑتا، سفر نہ ہوتے، دور دیس اور پردیس نہ ہوتے۔ کبھی ایک دوسرے کو الوداع نہ کہنا پڑتا۔

لیکن ہم اپنے بچوں کے راستے نہیں روک سکتے، ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں، آگے بڑھیں، خوابوں کی سرزمین پر اپنا نام روشن کریں۔ مگر ان کی جدائی میں، ہر رات تڑپنا ہے۔ ہر صبح ان کی یاد میں آنکھیں نم ہونی ہیں، ہر دعا میں ان کا ذکر ہونا ہے۔

اور پھر وہ لمحہ جب آپ کا پہلا بیٹا، آپ کا بڑا بیٹا، جسے دیکھ کر دل سکون سے بھر جاتا ہے، آپ کی آنکھوں کا تارا، آپ کا بہترین اور اولین دوست، آپ کا فخر، آپ کی امید، آپ سے جدا ہو کر کسی اور دیس روانہ ہوتا ہے… تو دل کے اندر ہی خون بہنے لگتا ہے۔ کچھ ٹوٹتا ہے، کچھ بکھرتا ہے… اور پھر وہ سب کچھ کبھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔ بس گھر کی سنگیں دیواروں کی خاموشی میں ماں کی سسکیاں اور باپ کی بے آواز آہیں گونجتی ہیں۔

لندن ایئر پورٹ پر مصعب سے جدا ہوتے وقت پاؤں سن ہو گئے۔

اس کی ماں کی ہچکی بندھ گئی اور میرے الفاظ گم ہوگئے۔
بس اسے دیکھتا رہا، اسے اپنی آنکھوں میں بھرتا رہا،
اس کے لمس کو بار بار محسوس کرکے اپنے آنسو روکتا رہا۔

یہ جدائی وقتی ہے یا دائمی، کوئی نہیں جانتا۔ مگر دل ہر لمحہ اسی خوف میں دھڑکتا ہے کہ اگلی ملاقات ہوگی بھی یا نہیں۔ وقت کی بے رحم دوڑ میں ہم سب پیچھے رہ جاتے ہیں… صرف دعاؤں کا سایہ آگے بڑھتا ہے کہ خدا اُسے کامیاب کرے۔ نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی۔ وہ ہر میدان میں سرخرو ہو، ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے، اور فتح و سربلندی کے جھنڈے گاڑے۔ ہم نے اُسے اپنی دعاؤں کے سپرد کر دیا ہے کہ ربّ العالمین اس کے ہر قدم پر اپنی رحمت نازل فرمائے، ہر موڑ پر اُس کا ہاتھ تھامے، ہر اندھیرے میں اُس کے لیے روشنی بن جائے۔ ہمیں اس کی کمی بے حد محسوس ہوتی ہے، لیکن ہم نے اپنے دکھ کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری محبت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ ہم صبر کریں، اور دعا کرتے رہیں کہ وہ جہاں بھی ہو، عظمت کے مقام پر ہو، خوش رہے، سلامت رہے، کامیاب رہے، کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا نہ ہو، کبھی اس کے چہرے سے مسکراہٹ نہ ہٹے… اور کبھی پلٹ کر پھر گلے لگا لے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے