مسجد پیرس (فرانس): یورپ میں اسلام کا ایک فعال سفارتخانہ

مذہب سے جڑی تمام چیزیں انسانوں کو سچائی، خیر اور خلوص سے جوڑنے والی ہوتی ہیں۔ خدا، رسول، آخرت، کتب، ایمان بالغیب، فرائض، اخلاقیات، الہامیات، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، مساجد و مدارس، مصلحین و مبلغین سمیت جتنی بھی چیزیں اور کام موجود ہیں یہ سب کے سب دراصل انسانوں کو درست راستے پر رکھنے والی ہیں۔ خیر و شر دونوں کے مادے انسان کے باطن میں، بہت ہی گہرے مقامات میں کہیں موجود ہوتے ہیں جو باہر موافق احوال دیکھ کر خود بخود ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مذہب انسان کے اندر موجود خیر کے مادے کو ابھارنے اور شر کے مادے کو دبانے کا ایک پورا نظام بروئے کار لاتا ہے۔ مسجد اس پورے نظام کا ایک نہایت اہم جزو ہے جس کے ذریعے انسان کو خیر سے جوڑنا مطلوب ہے۔ مسجد کے اہم ترین سرگرمیوں میں ایمان و اطمینان، دعوت و تربیت، عبادت و ریاضت، خشوع و خضوع، یکسوئی اور سکون کا حصول، خدمت و نفاست، تزکیہ و طہارت اور صبر و استقامت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی فطرت میں، انسان کو بہتر انداز میں بدلنے والی ہیں۔

مجھے جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی اس دنیا میں فرانس، اسلامی دنیا میں ترکی جبکہ پاکستان میں اسلام آباد بے حد محبوب و مرغوب ہے۔ میرا ماننا ہے زمین کے یہ تین ٹکڑے اپنے اندر خوبصورتی، سکون، حلاوت، آبادی، آسودگی، ٹھنڈک اور ٹھہراؤ کا بے تحاشہ سامان رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں خوشی اور اطمینان کے ہزاروں لاکھوں احساسات ہر طرف بکھرے پڑے ہیں ان تینوں مقامات پر اگر آپ کو روزگار اور رہائش کے کچھ بھی مناسب ذرائع میسر ہیں تو بخدا آپ خدا کے خوش نصیب بندوں میں شامل ہے آپ کو اس کے علاؤہ کسی احساس محرومی کا شکار، کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے نیز آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ دنیا کے بہترین حصوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

20 اکتوبر 2022 کو صبح 8 بجے کی نیوز بلیٹن کا لمحہ میرے زندگی کے خوشگوار ترین حصے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شامل ہوگیا کہ جس میں فرانس کی پہلی تاریخی مرکزی مسجد کی تعمیر کے 100 سال مکمل ہونے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکروں نے مسجد کا دورہ کیا اور مسجد کے پیش امام حافظ کیمس ایڈین کو فرانس کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز "لیجنڈ آف آنر” سے نوازا۔ مسجد کے دورے کے دوران صدر میکروں نے اس موقع پر فرانس کے مسلمان فوجیوں کے ناموں کی تختی کی نقاب کشائی بھی کی۔ صدر میکروں کے ہمراہ فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن اور وزیر دفاع سیبسٹین لیکورنو بھی موجود تھے۔ یاد رہے پیرس کی یہ مرکزی مسجد جنگ عظیم اوّل میں فرانس کی طرف سے لڑتے ہوئے جانوں کی قربانی دینے والے تقریباً 70 ہزار مسلمانوں کی یاد میں 1922ء کو بنائی گئی تھی۔ آئیے مذکورہ مسجد کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

مسجد پیرس فرانس کے دار الحکومت پیرس کے قدیمی حصے میں واقع ہے۔ اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح 15جولائی 1926ء کو ہوا تھا لیکن اس میں پہلی نماز با جماعت، دوران تعمیر 1922ء میں آدا کی گئی تھی۔ یہ مسجد وسیع رقبے پر واقع ایک نہایت ہی خوبصورت، شاندار طرزِ تعمیر کا شاہکار اور رنگ بہ رنگ پودوں اور درختوں سے خوب آراستہ ہے نیز اس کا مینار 33 میٹر اونچا ہے۔ اس میں مدرسہ، کمیونٹی سنٹر، ریسٹورنٹ، وسیع لان اور لائبریری بھی قائم ہے۔ اس مسجد کا انتظام فرانس اور الجزائر کی حکومتیں ایک کمیٹی کی وساطت سے مل کر چلاتی ہیں۔

مسجد پیرس کے لیے پہلا منصوبہ فرانس کی افریقی کمیونٹی نے 1895ء میں بنایا تھا مگر اس وقت فرانسیسی حکومت نے بوجوہ اسے منظور نہیں کیا۔ 1916ء میں جنگِ عظیم اول میں پچاس ہزار مسلمان فرانس کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یاد رہے یہ جنگ فرانس اور جرمنی کے درمیان ہوئی تھی۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم میں فرانس کی مدد کرتے ہوئے مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھے جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقہ کے مختلف ممالک سے تھا۔ اس وقت یہ ممالک فرانس کے زیرِ تسلط تھے۔ اس مدد کی وجہ سے فرانس کی حکومت نے مذکورہ مسجد کی تعمیر کا منصوبہ منظور کر لیا۔ آغاز میں حکومت فرانس نے اس کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔ 1922ء میں اس کی باقاعدہ تعمیر شروع ہوئی اور زیرِ تعمیر مسجد میں پہلی بار نماز پڑھی گئی البتہ اس کا باقاعدہ افتتاح 1926ء کو فرانس کے اس وقت کے صدر گاستوں دومیغگ نے کیا تھا۔ اس مسجد کو ایک سابقہ ہسپتال کی جگہ پر بنائی گئی ہے جو پیرس کے مشہور باغِ اشجار (Jardin des plantes) کے سامنے قائم تھا۔

مختلف نوعیت کے اپنے فعال اور تاریخی کردار اور خدمات کے سبب یہ مسجد مسلمانوں اور فرانسیسیوں کے درمیان اتحاد اور محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں فرانس پر جرمنی کے قبضے کے دوران یہ مسجد فرانس کی آزادی کی تحریک کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ اس مسجد میں پیراشوٹ سے نیچے اترنے والے برطانوی فوجیوں نے بھی پناہ لی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں پہ بہت سے یہودی خاندانوں کو بھی جرمنوں سے پناہ دے رکھی تھی جس کا جرمن افواج کو پتہ نہ چل سکا تھا۔ ان پناہ گزین یہودیوں کی تعداد 1600 سے زائد تھی۔ ان کو مختلف طریقوں سے بچایا گیا۔ کچھ کو چھپایا گیا اور کچھ کے لیے جعلی دستاویزات مہیا کی گئیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ کافی تعداد میں یہودیوں اور ان فرانسیسی عیسائیوں کو، جو جرمنوں کو درکار تھے، کو الجزائر، تیونس، مراکش اور جنوبی فرانس کے مختلف علاقوں کو فرار کروایا گیا۔ اس وجہ سے بہت سے یہودی جرمنی کے عقوبت خانوں میں جانے سے بچ گئے۔ لیکن کیا کریں انسان اپنے اوپر کیے ہوئے احسانات جلد ہی بھول جاتا ہے یہ انسانی نفسیات کی ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے جس کا کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ 1960ء کی دہائی میں فرانس کی فوج نے الجزائر میں بے شمار مظالم ڈھائے جبکہ یہودیوں کا سلوک بھی ف ل س ط ی ن کے تناظر میں ترحم سے مکمل طور پر خالی ہے۔

مسجد پیرس فرانس کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خوشگوار رابطے کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ یہ گویا یورپ میں اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ اور سفارتخانہ ہے، مسجد میں واقع ریسٹورنٹ اور کمیونٹی سنٹر اس سلسلے میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک کے وفود کو یہاں مدعو کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں حلال کھانے مہیا کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ مسجد کا کانفرنس روم ایک ایسی جگہ ہے جہاں مسلمان اور غیر مسلم دونوں جمع ہوتے ہیں اور ایسے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں جو صحت مند تعلقات اور رابطوں کا باعث بنتے ہیں ایسے پروگرامات کے لیے اکثر و بیشتر عربی اور فرانسیسی زبانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس مسجد میں ہر قومیت کے مسلمان آسانی سے مل سکتے ہیں کیونکہ یہ پیرس شہر کے مرکزی مقام پر واقع ہے۔

مسجد پیرس سارا سال سیاحت کے لیے بھی کھلی رہتی ہے۔ اس میں عربی اور فرانسیسی زبانوں میں درس و تدریس کا اہتمام بھی باقاعدگی سے ہوتا ہے جس میں غیر مسلم سیاح بھی شرکت کرتے ہیں۔ مسجد کے حلال کھانے کے ریسٹورنٹ میں خاص طور پر سیاحوں کو عربی اور شمالی افریقی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ مسجد کی بہت بڑی لائبریری تمام مذاہب کے محققین کے لیے کھلی رہتی ہے۔ ریسٹورنٹ میں ہی ایک عربی طرز کا حمام بھی قائم کیا گیا ہے۔ مسجد انتظامیہ سیاحوں کے ذوق و نظر کو مسجد کے بڑے ہال، کتب خانے، وسیع لان اور دیواروں کو کام میں لاتے ہوئے آیات قرآنی پر مشتمل خوبصورت نقش نگاری سے آسودگی پہنچانے کا انتظام بھی کرتی ہے۔

مسجد پیرس تمام غیر مسلم معاشروں کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ غیر مسلم معاشروں میں میں مسجد کی افادیت بڑھانے کے لیے ضرور ایسے اقدامات اٹھانا چاہیے فی زمانہ عمومی تقدس کا کم افادیت کا زیادہ بن گیا ہے لوگ ہمیشہ کاموں، چیزوں اور جگہوں میں افادیت تلاش کر رہے ہیں اور اس حساب سے تاثر لے رہے ہیں۔ یہ لازم ہے کہ غیر مسلم معاشروں میں مساجد کو بین المذاہب مکالمے، ثقافتی تبادلے اور سماجی ہم آہنگی کے لیے باقاعدہ مراکز بنایا جائے۔ یہاں غیر مسلموں کو اسلام کے بنیادی اصولوں سے متعارف کرایا جائے اور مشترکہ انسانی اقدار پر زور دیا جائے۔ اس طرح مساجد مفت طبی کیمپ، خون عطیہ مہم، غریب طلبہ کے لیے تعلیمی اسکالرشپس اور کھانا تقسیم کرنے جیسی سماجی خدمات انجام دے کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس طرح غیر مسلموں کے لیے عربی زبان کے مختصر کورسز، اسلامی فنون کی نمائشیں اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے لیکچرز کا اہتمام کیا جائے تاکہ اسلام کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں دور ہوں۔ اس طرح خواتین کے لیے خصوصی نشستیں، نوجوانوں کے لیے اسپورٹس ایونٹس اور ورکشاپس کا انعقاد کر کے مسجد کو ایک جامع سماجی مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح مساجد سوشل ایکٹیویٹیز کے ذریعے احساس تنہائی کے شکار معاشروں میں ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون کر کے مثبت تاثر پھیلا سکتی ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیوں کو سوشل میڈیا کے نشر کرنا نہایت مفید ثابت ہوگا۔

مسجد کے اس انداز میں انتظام اور کردار، بے شک ہمارے لیے بھی سیکھنے کا وافر سامان مہیا کرتا ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ہم نے اپنی مساجد کو بالکل ویران کر کے چھوڑ دیا ہیں۔ مسجد میں گفتگو منع ہے، مشاورت منع ہے، باہمی ربط و ضبط منع ہے، لائبریری نہیں، کمیونٹی سنٹر نہیں، کلینک نہیں، تنازعات کی تلافی میں کوئی کردار نہیں۔ ایک ہی صف میں کھڑے محمود و ایاز کو ایک دوسرے کے حال احوال کی کوئی خبر نہیں۔ نمازی پانچ وقت ملتے ہوئے بھی حقیقت میں ایک دوسرے سے بےگانہ رہتے ہیں۔ غریب اور امیر، ضرورت مند اور آسودہ حال، مایوس اور پر امید اور عالم و بے علم میں کوئی سائنٹفک اور جاندار رابطہ نہیں جو معاشرے کو بہتر انداز میں بدل دیں۔ رسمی رواجی انداز میں معاملات چلتے ہیں جن کی زندگی کے حقائق سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اگر خواہش مند ہیں کہ ایک اسلامی اور فلاحی معاشرہ وجود میں آئے تو ہمیں مسجد کا کردار بڑھانا ہوگا اور اس کی حیثیت کو ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے