امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علانیہ دعویٰ کیا کہ امریکی افواج نے ایران کی تین نیوکلیئر تنصیبات — فردو (Fordow)، نطنز (Natanz)، اور اصفہان (Esfahan) — پر “کامیاب” حملہ کرکے انھیں صفحۂِ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ امریکی میڈیا ذرائع، جن میں فاکس نیوز (Fox News) بھی شامل ہے، کے مطابق اس حملے میں چھ عدد GBU-57 میسیو آرڈنینس پینیٹریٹر (Massive Ordnance Penetrator – MOP) بنکر بستر بم فورڈو کی گہرائی میں دفن سائٹ پر گرائے گئے، جبکہ نطنز اور اصفہان کو ٹومہاک کروز میزائل (Tomahawk cruise missile) کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین اور اصولوں، خصوصاً نیوکلیئر غیر پھیلاؤ معاہدہ (Non-Proliferation Treaty – NPT) اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (International Atomic Energy Agency – IAEA) کی نگرانی میں حفاظتی اقدامات کی کھلی اور بے مثال خلاف ورزی ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت نیکلیئر تنصیبات پر حملہ کرنا جرم ہے۔
ایران کا بیان
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے ایٹمی توانائی کے ادارے (Atomic Energy Agency) کے ذریعے ان حملوں کی شدید مذمت کی اور انہیں “بربریت کے اعمال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانونی ڈھانچوں اور ایران کی جانب سے دستخط شدہ NPT کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ایجنسی نے IAEA کے متضاد موقف کی نشاندہی کی، جو کہ قانونی طور پر نگرانی میں رکھے گئے ان نیوکلیئر سائٹس کے دفاع کے بجائے غیر ذمہ دار یا خاموش حمایت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ایران نے امریکی کارروائیوں کی قانونی حیثیت کو قطعی طور پر مسترد کیا اور کہا کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن ہے اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت محفوظ ہے۔
ان نیوکلیئر سائٹس پر حملہ کر کے امریکہ نے ایک خطرناک حد عبور کی ہے، سفارتی طریقوں کو نظر انداز کیا اور قومی سلامتی کے بہانے ایک خودمختار ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی۔ یہ جارحیت عشروں پر محیط نیوکلیئر غیر پھیلاؤ کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو بھڑکا سکتی ہے اور پہلے سے غیر مستحکم مشرق وسطیٰ کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
مشکوک سٹریٹیجک اہداف
فوجی-تکنیکی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس حملے سے کیا حاصل ہوا اس بارے میں کامیابی کے دعوے انتہائی مشکوک ہیں۔ فردو سائٹ تقریباً 90 میٹر زیر زمین پہاڑ کے اندر بنی ہے، جو خاص طور پر شدید بمباری کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ جدید ترین B-2 سٹیلتھ بمبار (stealth bombers) جو MOP (میسیو آرڈنینس پینیٹریٹر) بم لے جانے کے قابل ہیں، بھی ایسے مضبوط زیر زمین ہتھیاروں کے مکمل تباہی کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، چونکہ یہ وسیع پیمانے پر معلوم تھا کہ فورڈو ایک ممکنہ ہدف ہے، اس لیے بنیادی سٹریٹیجک سوال پیدا ہوتا ہے: ایران اپنا “نان-ویپن-گریڈ” افزودہ یورینیم (enriched uranium) اتنے کھلے مقام پر کیوں رکھے گا؟ امکان ہے کہ حساس مواد پہلے ہی کہیں اور منتقل کر دیا گیا تھا، جس سے اصل نقصان کم سے کم ہو۔
تاریخی سیاق و سباق بھی اس دعوے کو کمزور کرتا ہے کہ یہ اسٹریٹیجک کامیابی تھی۔ B-2 بمبار، ٹیکنالوجی کی برتری کے باوجود، اکتوبر 2024 سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف طویل فضائی مہمات میں تعینات ہے، جن میں زیر زمین ہتھیاروں کے ذخیرے پر متعدد حملے شامل ہیں۔ تاہم یہ آپریشنز حوثیوں کے رویے یا صلاحیتوں میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے، جبکہ حوثیوں نے اسرائیل پر راکٹ حملے جاری رکھے۔ البتہ امریکہ نے اس تعطل کے دوران اس خطے سے اپنے ایئر کئریئرز نکال لیے جس ایک سٹریٹیجک پسپائی کہا جا سکتا ہے۔
حکمت عملی کی تفصیلات اور نتائج
حال ہی میں المیادین (Al Mayadeen) اور دیگر ذرائع کی رپورٹس کے مطابق، امریکی حملے زیادہ تر فورڈو کے داخلہ اور خارجی سرنگوں (entry and exit tunnels) کو نشانہ سکے ہیں، پورے مرکز کو نہیں۔ اس سے پہنچنے والے نقصان کی گہرائی اور وسعت پر شک پیدا ہوتا ہے۔ اگر بنیادی ڈھانچہ سالم رہتا ہے تو تنصیب کی عملی صلاحیتیں عارضی طور پر متاثر ہو سکتی ہیں۔
فردو اس کے برعکس، نطنز میں زیادہ تعداد میں سینٹرفیوجز (centrifuges) لگے ہوئے ہیں جو یورینیم کی افزودگی کے لیے اہم ہیں، جس سے یہ ایک زیادہ سٹریٹیجک لحاظ سے قیمتی ہدف بنتا ہے۔ نطنز پر حملہ زیافہ نقصان دے ہو سکتا ہے، لیکن ایران نے اپنی استقامت اور تیزی سے بحالی کی صلاحیتیں دکھائی ہیں، جن میں پوشیدہ نئی افزودگی کی تنصیبات کا آغاز بھی شامل ہے۔ خاص طور پر، ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر کو ممکنہ طور پر کہیں اور نامعلوم محفوظ جگہوں پر منتقل کردیا گیا ہو، جس سے ان حملوں کے طویل مدتی نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تک نہ تو ایرانی حکام نے اور نہ ہی IAEA نے تینوں نشانے بنائے گئے مقامات پر کسی قسم کی تابکاری (radiation) کے اخراج یا نیوکلیئر آلودگی کی اطلاع دی ہے۔ اس نیوکلیئر خطرے کی غیر موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حملوں دے فیزیکل نقصان محدود تھا اور بنیادی نیوکلیئر مواد یا نظام متاثر نہیں ہوا۔
ایران کا نیوکلیئر پروگرام: سست روی، روک تھام نہیں
بدترین مفروضہ صورت حال میں بھی، ان سائٹس کے تباہ ہونے سے ایران کے یورینیم کی افزودگی اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی ترقی کی رفتار میں تاخیر ہو سکتی ہے، مگر مکمل روک تھام نہیں۔ ایران کے موجودہ افزودہ یورینیم کے ذخائر ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ علاوہ ازیں، ایران کے پاس سینٹریفیوج بنانے کی بہت میچور صلاحیت اور وسائل ہیں جن کی بدولت وہ خراب شدہ انفراسٹرکچر کو چند ماہ میں دوبارہ تعمیر کر سکتا ہے۔
ایران کی ایک تیسری، خفیہ افزودگی کی تنصیب کا اعلان امریکی کوششوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ اس کی جگہ ابھی تک نامعلوم ہے، جو ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں سٹریٹیجک گہرائی اور استقامت کا اضافہ کرتا ہے۔
جیوپولیٹیکل اور سفارتی اثرات
صدر ٹرمپ کا یکطرفہ فوجی اقدام، بغیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح منظوری یا بین الاقوامی اتحادیوں سے مشورے کے، عالمی سفارتی نظام کو گہرا نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ انتقامی ردعمل کو ہوا دینے، ایک پہلے ہی نازک خطے میں فوجی تصادم کو بڑھانے، اور ہتھیار کنٹرول کرنے کے بین الاقوامی نظاموں پر اعتماد کو کمزور کرے گا۔
مزید برآں، حملے کا وقت اور نوعیت سیاسی مقاصد کی حامل معلوم ہوتی ہے، جو واضح سٹریٹیجک فائدے حاصل کرنے کی بجائے اندرونی سیاسی پوزیشننگ کے لیے کی گئی۔ یمن میں امریکی فوجی آپریشنز کی ناکامی کے ساتھ مشابہت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ امریکی حکمت عملی سیاسی حل کے بغیر فوجی طاقت پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کی نیوکلیئر سائٹس پر کامیاب حملے کا اعلان ایک بے حد غیر ذمہ دار اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور ایک آزاد ملک کے خلاف ننگی جارحیت ہے، جس میں سٹریٹیجک مبالغہ آرائی اور آپریشنل پیچیدگیاں شامل ہیں۔ تابکاری کے اخراج کی کوئی اطلاع نہ ہونے اور ہدفوں کے پہلے سے معلوم ہونے کے پیش نظر بنیادی سوال یہ ہے: اس طاقتور مظاہرے کے علاوہ حقیقت میں ٹرمپ نے کیا حاصل کیا؟ ان حملوں کا ایران کے نیوکلیئر عزائم پر اس کا حقیقی اثر محدود لگتا ہے، جو زیادہ تر علامتی آتشبازی کی مانند ہے نہ کہ فیصلہ کن ضرب۔
جیسا کہ شواہد بڑھتے جا رہے ہیں کہ امریکی بمباری اپنے دعوے کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر پائی ہے، اس تناظر میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے: ایران کیسے ردعمل دے گا؟
اب تک، تہران کا محتاط ردعمل — چاہے وہ خطے میں امریکی اتحادیوں کے اڈوں پر نشانہ وار حملے ہوں یا کسی حکمت عملی کے تحت ایسکیلیشن سے بچنا — ایک سنجیدہ اور حساب کتاب والا انداز ظاہر کرتا ہے جو امریکہ کی جارحیت کے جواب میں امریکی فوجی اڈوں پر حملوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے تاکہ امریکی حملے کے سیاسی اثرات کو ایران اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کرسکے، اور یہ ایک بہت اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
ایران کو شکست نہیں ہوئی ہے، وہ این پی ٹی (NPT) کے تحت یورینیم افزودگی کے قانونی راستے پر ثابت قدم ہے، ہتھیار نہ بنانے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے خودمختار حقوق کا دفاع کر رہا ہے۔ یہ ایران کی اخلاقی فتح ہے جبکہ امریکی صدر کا چہرا مزید داغدار ہوا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کرے گا، ہتھیار بنانے کی کوششوں میں تیزی لائے گا، یا موجودہ پالیسی جاری رکھے گا۔ اس کا اصل جواب آنے والے دنوں اور مہینوں میں اس کے عمل سے ظاہر ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقدام خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈالتا ہے، ہتھیاروں کے غیر پھیلاؤ کے نظام کو کمزور کرتا ہے، اور دنیا کو وسیع تر تصادم میں دھکیلنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ کئی ذمہ دار تجزیہ کار ٹرمپ کو اس حملے کو جنگی جرم قرار دے رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ آیا انہیں نورمبرگ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے یا پھر امن کا نوبل انعام ملتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ ایسے یکطرفہ فوجی مداخلتوں کا تنقیدی جائزہ لے، سفارتی ذرائع کو فوقیت دے، قانونی تصفیۂ تنازعات کے عہد کو تازہ کرے، اور دنیا کو بچوں کے قاتل ریاست کی لا محدود خواہشات سے محفوظ بنائے۔