تعلیم یا تاخیرِ شعور؟ جدید نظامِ تعلیم پر ایک نظر

دور جدید نے حصول تعلیم کا دورانیہ فرد کی اوسط عمر کی ایک تہائی اور بعض صورتوں میں نصف عمر کو محیط کر دیا، جس کے بعد ہی عملی زندگی میں شمولیت اختیار کی جا سکتی اور کسب معاش کے ساتھ خود مختاری کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔

اس سے پہلے وقتوں میں بچے تیرہ، چودہ سال کی عمر میں گھر بار اور کاروبار زندگی سنھبالنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے، ٹین ایج ہی میں وہ حکومتی اور انتظامی عہدوں پر کام کرتے، حکم رانی بھی کرتے اور امور مملکت میں دخیل تک ہو جاتے تھے، لیکن دور جدید میں ٹین ایجرز بچے قرار دے دے گئے جو نہ ڈرائیونگ کرنے کے لائق ہیں، نہ ووٹ ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور باقاعدہ ملازمت اختیار کرنے اور نہ شادی کرنے کے۔

پہلے بچے بالغ ہوتے ہی عاقل بھی ہو جاتے تھے، اسی لیے ‘عاقل بالغ’ کی ترکیب زبان میں جگہ پا گئی۔ دور جدید کے تعلیمی نظام نے بلوغت اور عقل کے درمیان فاصلہ بہت طویل کر دیا۔ عملی زندگی سے دور، بلکہ اس سے محفوظ رکھ کر دی گئی تعلیم ایک بالغ کو عاقل ہونے ہی نہیں دیتی، جب تک کہ وہ تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں قدم رکھے اور کچھ برس گزار کر خود مختار ہونے کی سعی نہ کر لے۔

اس کے نتیجے میں والدین پر انحصاری کی مدت میں بھی اضافہ ہو اور شادی بھی تاخیر کا شکار ہوگئی۔ دور جدید کی دانش نے اپنی پیدا کردہ اس تبدیلی کو نہ صرف اختیار کیا بلکہ اسے ہی معیاری قرار دے کر ماضی کی کم سنی کی ملازمت اور شادیوں پر نکتہ چین ہوئی۔ اب کم سنی کی ملازمت چائلڈ ایبیوز اور اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی بالغوں کا استحصال کہلائی۔

وہ بزرگ ابھی زندہ ہیں جنھوں نے کم سنی میں کاروبار زندگی سنبھالا اور شادیاں کی تھیں اور ایک نارمل زندگی گزاری تھی۔

جنسی جذبات اپنے وقت پر نمودار ہوتے اور اپنی تسکین چاہتے ہیں۔ دور حاضر اس مخمصے سے دو چار ہے کہ جو نظام اس نے تشکیل دے دیا ہے اس کے مطابق فطرت کو چاہیے کہ بلوغت کم سے کم اٹھارہ سال کی عمر میں ہو۔ مگر فطرت اپنا وقت تبدیل کرنے پر تیار نہیں۔ اب سماج کو سمجھوتے کرنے پڑے۔

شادی چونکہ ذمہ داری کا نام ہے، جو اب ایک ٹیم ایجرز اٹھا نہیں سکتا، اس لیے بغیر شادی کے جنسی تسکین کا مطالبہ پیدا ہوا۔ مطالبہ پیدا ہوا تو جواز بھی پیدا کر لیا گیا۔ تاہم، اسے بھی قاعدے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ قانون بنا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتا۔ مگر جنسی جذبے کو لگام دینا مشکل ہوگیا تو اب یہ بھی گوارا کیا جانے لگا کہ دو کم سن جنسی تعلق قائم کر لیں تو حرج نہیں۔

جنسی عمل سے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں اور شادی کے بغیر ان کی ذمہ دارانہ پرورش کا کوئی چارہ موجود نہیں۔ چنانچہ حمل روکنے کے ذرائع پیدا ہوگئے اور حمل کو ضائع کرنے کا جواز بھی پیدا کر لیا گیا۔ چنانچہ وہ سماج جہاں ایک جانور کی موت کو برداشت نہیں کیا جاتا وہاں ایک انسانی جنین کو قتل کرنا جائز سمجھا گیا۔ اور بغیر شادی کے بچے پیدا ہو ہی جائیں تو باپ کو بھی ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنایا گیا اور ریاست نے بھی ایسے بچوں کی پرورش میں سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی۔

بغیر شادی کے جنسی تسکین کا راستہ کھلا تو شادیاں مزید تاخیر کا شکار ہوگئیں کیونکہ شادی کیے ساتھ ذمہ داریاں پیدا ہو جاتی ہیں، جنسی آزاد روی کی گنجایش بھی نہیں رہتی۔ جب کہ شادی کے بغیر ساتھ رہنے میں یہ سہولت ہے جب چاہیں تعلق ختم کر سکتے ہیں۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ بحث و نظر کا الگ میدان ہے۔

مشرقی ممالک جہاں بغیر شادی کے جنسی تعلق کو جواز نہیں دیا گیا وہاں اس جدید نظام کی وجہ سے شادی میں تاخیر جنسی تشنگی تسکین کے دیگر ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبورںکر دیتی ہے جو ان گنت مسائل کا سبب ہے۔

یہ ایک کے بعد ایک نتائج کا سلسلہ جس جڑ سے جڑا ہے وہ دور جدید کا نظام تعلیم ہے جو بچے کو عملی زندگی سے کاٹ کر تعلیم دیتا اور فرد کے بچپنے کی عمر کو غیر معمولی طور پر طویل کرنے کا باعث ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے