دنیا کی سب سے تلخ حقیقت بھوک ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے تو "روٹی نامہ” میں سب کچھ کہہ دیا۔ دنیا کی سب سے بھدی حقیقت دھوکہ ہے، اور یہ دھوکہ ان سے ملتا ہے جن پر آپ کو بھروسہ ہوتا ہے۔
اس دنیا میں شاید دنیاوی طور پر وہی لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو سیاست، بلکہ گندی سیاست اور بے حس سیاست کرنا جانتے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا کی سیاست ایک بہت سنجیدہ فلم ہے، مگر اس میں اداکاری اتنی بری ہے کہ ہنسی آ جاتی ہے۔ اور شاید یہ ہنسی بھی ایک بے بسی کی ہنسی ہی رہ گئی ہے میرے جیسوں کے پاس۔ آنسو تو بہت بہا لیے، آواز بھی بہت بلند کی، اب دل کہتا ہے ذرا قہقہہ مار کے دیکھیں، شاید جتنی عمر رہ گئی ہے، بہتر کٹ جائے۔
ویسے صدر ٹرمپ کے امن نوبل انعام کی آرزو اور ان کے بیانات نے مجھے دل سے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔
آپ ان کی سیاست کو پسند کریں یا نہ کریں، یہ تو ماننا پڑے گا کہ وہ ایک بے دھڑک اور دیانت دار آدمی ہیں۔
ان کو نوبل انعام کیوں نہ ملے، جبکہ انھوں نے تو بظاہر صدر اوباما جتنے بم بھی مسلمانوں پر نہیں برسائے؟
اب وہ خود کو نوبل کے لیے اہل سمجھتے ہیں اور پاکستان بھی 2026 کے لیے ان کی نامزدگی کی تیاری میں ہے!
(حوالہ: رائٹرز، جون 2025)
تو کیا امن نوبل اب صرف کم بم گرانے کا انعام رہ گیا ہے؟
آج کل سچائی کا قتل عام ہے اور فقدان ہے، لہٰذا سچی خبریں سامنے لانا اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ ذرا حقائق چیک کر لیں:
فیکٹ چیک: اوباما بمقابلہ ٹرمپ
اوباما (2009–2017):
✔ 563 ڈرون حملے (بیشتر پاکستان، یمن، صومالیہ میں)
✔ 2,500–4,000 ہلاکتیں
✔ سینکڑوں شہری متاثر
ٹرمپ (2017–2021):
✔ 176+ حملے
❌ شفافیت ختم — شہری ہلاکتوں کی رپورٹنگ بند
نتیجہ:
ٹرمپ نے حملے کم ضرور کیے، مگر حقائق چھپا لیے۔ اور جب شفافیت ہی ختم ہو جائے، تو حساب کون دے گا؟
برق ہمیشہ مسلمانوں پر کیوں گرتی ہے؟
اس کا جواب آپ کو خود ڈھونڈنا ہوگا۔
کچھ خیالات میرے بھی ہیں اور حسبِ عادت آپ کے سامنے لا رہی ہوں۔
#USPak تعلقات: محبت نامہ اور نرخ نامہ
صدرِ امریکہ نے فرمایا:
"I love Pakistan!”
اقبال نے "محبت فاتحِ عالم” ایویں تو نہیں کہا تھا۔ یہ جملہ مقناطیسی ہے، جادوئی ہے، اور کہنے والا اس عالم کا طاقتور ترین آدمی! ایسے میں کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟ ایک ممکنہ جواب اور انداز یہ ہو سکتا ہے:
"آپ کی محبت سر آنکھوں پر، بس دامِ محبت ذرا آج کے ریٹ پر طے کر لیں!”
حافظ شیرازی:
در خراباتِ مغان نورِ خدا میبینم
این عجب بین کہ چه نوری ز کجا میبینم
"میں مے خانوں میں بھی خدا کا نور دیکھتا ہوں — یہ حیرت دیکھو کہ کہاں سے کیا جلوہ نظر آتا ہے!”
اور اگر اس صورتحال کو ایک محکوم عورت کی آنکھ سے دیکھوں تو بس اتنا کہوں گی:
"اگر رونا اور محبت کے نام پر ہر قسم کی اطاعت ہی مقدر ہے، تو مرسڈیز میں رونا بہتر ہے، بس میں نہیں!”
لیکن یہ تو فرضی باتیں ہیں اور خود کلامی ہے۔ ہم نے حمیت پر کیے گئے سمجھوتوں کو اپنی جیت جانا۔ یہ بھی عملیت پسندی کی ایک علامت ہے۔
ہنری کسنجر فرما گئے ہیں:
"امریکا کی ناراضگی بری ہے، اور دوستی اس سے بھی بری۔”
مجھ جیسی آوازوں کو تو کئی تھنک ٹینک بھی برداشت کرنے کے روادار نہیں۔
پھر بھی نسبت مجھے اس خاک سے ہے، اس لیے عبیداللہ علیم کا یہ شعر امریکا بہادر کی خدمت میں عرض ہے:
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے،
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔
#ایران_اسرائیل: اسکرپٹ سے باہر
ایران کہتا ہے: میرے پاس کوئی آپشن نہیں، میرے ساتھ کوئی نہیں۔ اور ہم سب اس کی تنہائی کو ٹی وی پر لائیو دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے بے بس لوگوں کی بیچارگی اور نسل کشی بھی دیکھ لی۔
#GenocideInGaza اب ہمیں ذہنی یا ضمیر کی تکالیف بھی نہیں دیتی۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ میں ایمپاتھ ہونے کے بجائے ماہرِ انٹرنیشنل ریلیشنز ہوتی اور جذبات سے عاری لہجے میں پکا منہ بنا کر انسانوں کی موت کو "کولیٹرل ڈیمیج” کہہ سکتی۔ اگر کوئی ٹی وی چینل مجھے بلاتا، تو میں اس طرح کا فلسفہ بیان کرتی۔
دنیا ایک اسٹیج ہے، اور ایران اس وقت اسکرپٹ سے باہر جا رہا ہے۔
اور جب کوئی کردار اسکرپٹ سے ہٹے، تو یا تو اسے "کٹ” کیا جاتا ہے، یا "ولن” قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہمیں اپنی فکر کرنی ہو گی۔
لیکن میں ایک PR میں زیرو اور موقع پرستی کے آرٹ میں بھی صفر — ایک پاکستانی لاوارث بیہاران ہوں۔
یہ جملہ بہت دکھے دل کے ساتھ لیکن مکمل ذمہ داری سے لکھ رہی ہوں، کیونکہ اس سماج میں میری کوئی وقعت نہیں۔
اور اپنی فکر کو قائم رکھنے کی سزا مجھ کو مختلف انداز اور سمتوں سے ملتی رہتی ہے۔
شریف انسان کے لیے سب سے بڑی سزا اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا ہوتا ہے اور تضحیک کی تکلیف بہت ہوتی ہے، میں اس سے مبرا نہیں ہوں۔
میرے پاس اثر و رسوخ یا ہتھیار کے نام پر صرف ایک لائبریری ہے، جس میں اقبال کی تصانیف، دیوانِ حافظ، اور غالب بھی شامل ہیں۔
غالب کا خیال ہے کہ اس سمے ایران پر ان کا یہ شعر صادق ہے:
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے؟
بے سبب ہوا غالب، دشمن آسماں اپنا۔
مسلم عرب ریاستوں کی خاموشی:
چھپن اسلامی ممالک۔ بائیس عرب ریاستیں۔ ایک لامحدود تاثرِ اسلامی اخوت۔؟؟؟؟؟؟
لیکن غزہ کے بچوں کے لیے ایک بوتل پانی اور ایک روٹی بھی نہیں جا سکتی۔
غزہ کی پٹی میں قحط کی صورتِ حال بڑھتی جا رہی ہے، اور عرب لیگ کے اجلاسوں میں کرسٹل کے جگ، گلاس، ٹشو باکس، اور ترجمے کی سہولت موجود ہے، مگر انسانی ہمدردی اور ہم دلی ندارد۔
2.1 ملین انسان بھوک، بیماری، اور موت کا سامنا کر رہے ہیں۔
آدھی سے زیادہ آبادی قحط کے دہانے پر ہے، اور سینکڑوں بچے اب تک بھوک کی وجہ سے مر چکے ہیں۔
یہ تعداد سرکاری ہے ، حقیقت میں زیادہ ہے۔
اگر یہی حال رہا، تو آئندہ گیارہ ماہ میں 71 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں گے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا:
"ہمیں قحط کے اعلان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ لوگ پہلے ہی بھوکے، بیمار اور مر رہے ہیں۔”
اقبال نے فرمایا تھا:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
پاکستانی سول سوسائٹی: ہے کوئی؟
سول سوسائٹی ایک فضول اصطلاح بن گئی ہے۔
گمان غالب ہے کہ مر چکی ہے — ہو سکتا ہے کہ کسی سیمینار میں زندہ ہو یا مطلب پرست پلیٹ فارمز پر۔
سول سوسائٹی کا مطلب وہ ادارے، تحریکیں، اور آوازیں ہیں جو عوامی مفادات کے لیے کام کرتی ہیں — حکومت سے آزاد اور سیاست سے ہٹ کر۔
لیکن آج، سوائے چند آوازوں کے، باقی سب یا تو مصلحت کا شکار ہیں، یا مفاد پرستی میں گم۔
جمہوریت ہو یا آمریت، سول سوسائٹی کو ہر دور میں مار پڑی۔
ذاتی مفاد کی NGO، سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے "رضاکار”، اور فنڈنگ کی تلاش میں بھٹکتی تنظیمیں — یہی رہ گیا ہے اب۔
واعظان کاین جلوه بر محراب و منبر میکنند
چون به خلوت میروند، آن کار دیگر میکنند
(جو واعظ منبر و محراب پر جلوہ گری کرتے ہیں، خلوت میں جا کر کچھ اور ہی کرتے ہیں!)
مزاحمت یا مفاہمت؟
کسی نے پوچھا:
"آپ بہت ناقدانہ نگاہ رکھتی ہیں۔ کمزور طاقت ور کے سامنے کیسے مزاحمت کرتے ہیں؟”
میں نے کہا:
"ہم جیسے کمزور صرف مفاہمت کرتے ہیں۔ مصلحت پسندی سے کام لے سکتے ہیں۔
مزاحمت بڑے لوگوں کا وصف ہے — بڑے لوگ جیسے کہ حبیب جالب، سعادت حسن منٹو، یا مارلون برینڈو!”
مارلون برینڈو کا تذکرہ اس لیے کیا کہ 27 مارچ 1973 کو 45 ویں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں، انہوں نے فلم "گاڈ فادر” کے لیے بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے تقریب میں شرکت نہیں کی، اور اپنی جانب سے انڈیجنس رائٹس ایکٹوسٹ مس سچین لٹلفیتھر کو بھیجا، تاکہ انکار کی وجہ بیان کریں۔
لٹلفیتھر نے برینڈو کے اس انکار کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا احتجاج فلمی صنعت کی نیٹو امریکنز کی منفی اور توہین آمیز تصویر کشی پر ہے۔
اقبال کی صدا
خُودِی کا سرِّ نہاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
خُودِی ہے تیغ، فَساں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صَنم کدہ ہے جہاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وَہم و گُماں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
خِرَد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زمان و مکاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ