خوشی کا جال: ایک دھوکہ یا حقیقت؟

خوشی کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہمیشہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ ہم سب کی زندگی میں خوشی کی ایک بہت بڑی خواہش ہے، اور یہی خواہش ہمیں مسلسل اس کی تلاش میں لگا دیتی ہے۔ لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس چیز کی ہم تلاش کرتے ہیں، وہ اکثر ہمارے سامنے ایک جال بن کر آتی ہے۔ خوشی، جو کہ سب سے زیادہ مطلوب اور قیمتی چیز سمجھی جاتی ہے، اپنی تلاش میں ہمیں اکثر مزید مایوسی، الجھن، اور ناپسندیدہ نتائج کی طرف لے جاتی ہے۔

خوشی کا یہ پارادوکس ایک ایسی حقیقت ہے جس پر نہ صرف فلسفیوں نے بات کی ہے، بلکہ ماہرینِ نفسیات نے بھی اس کی گہرائیوں میں جھانکا ہے۔ اس کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم خوشی کو حاصل کرنے کے لیے جتنی محنت اور لگن سے کوشش کرتے ہیں، وہ ہمیں حقیقت میں خوشی دے پاتی ہے یا پھر ہم اس کوشش میں اپنے آپ کو خوشی کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں؟ ارسطو، جو کہ ایک عظیم یونانی فلسفی تھے، اپنی کتاب "نیکو میچین اخلاقیات” میں لکھتے ہیں کہ خوشی کا حصول ایک طویل المدت اور باقاعدہ عمل ہے، جو انسان کے کردار اور اعمال پر منحصر ہے۔ اس کے مطابق، خوشی فوراً حاصل ہونے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جو ہمیں اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے جینے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جو خوشی حاصل کرنے کے لیے دوڑتے ہیں، وہ زیادہ تر وقتی اور مادی ہوتی ہے۔ خوشی کا جال اس وقت بنتا ہے جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ نئی چیزیں، کامیابیاں یا چیزیں ہمیں خوشی دے سکتی ہیں، لیکن جب ہم ان کے پیچھے دوڑتے ہیں، تو ان سے حاصل ہونے والی خوشی عارضی اور کم ہوتی جاتی ہے۔ یہی بات بارٹ ویکر کی "ہیڈونک ٹریڈ مل” کے نظریے میں بھی واضح ہوتی ہے، جس کے مطابق ہم جب بھی کسی نیا خوشی کا تجربہ کرتے ہیں، بہت جلد وہ ہمیں معمولی لگنے لگتا ہے، اور پھر ہم دوبارہ نئے تجربات یا چیزوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ اس عمل میں ہم ہمیشہ خوشی کی تلاش میں ہوتے ہیں، لیکن وہ ہمیں کبھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہوتی۔

ہم جب خوشی کے پیچھے بھاگتے ہیں تو ایک اور بات بھی ہمارے ساتھ ہوتی ہے: ہم دوسروں سے اپنے آپ کا موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کے پاس زیادہ دولت، زیادہ شہرت یا کامیابی ہوتی ہے تو ہم اپنی زندگی کو اس کے ساتھ جوڑنے لگتے ہیں۔ بارری شوارتز نے اپنی کتاب "دی پارادوکس آف چوائس” میں اس بات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے کہ جب ہمارے پاس انتخاب کی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں تو ہم میں سے اکثر ان انتخابوں سے پریشان ہو جاتے ہیں، کیونکہ ہمیں ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ہم نے جو انتخاب کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے، اور ہمیں زیادہ خوشی مل سکتی ہے۔ اس موازنہ کے نتیجے میں ہم اپنی خوشی کی قدر کم کر دیتے ہیں، کیونکہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا ہوتا ہے جو ہم سے زیادہ خوش نظر آتا ہے۔

یہی خوشی کا جال ہے۔ جب ہم کسی بیرونی چیز یا کامیابی کو خوشی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں، تو ہم اس کی تلاش میں خود کو اتنی زیادہ مشکلات میں ڈال لیتے ہیں کہ وہ چیز ہمیں کبھی مکمل طور پر خوش نہیں کر پاتی۔ حقیقت میں خوشی کا تعلق ہمارے اندر کی کیفیت سے ہے۔ ہم جب تک اپنی اندرونی حالت کو بہتر نہیں کرتے، خوشی کا یہ جال ہمیں کبھی چھوڑنے والا نہیں۔

مائیہ سیسکینٹینی (Mihaly Csikszentmihalyi) نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ خوشی کا حقیقی راز اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی کام میں اتنی محنت اور مشغولیت کرتے ہیں کہ ہم اس میں مکمل طور پر غرق ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت "فلو” کہلاتی ہے، جس میں انسان کسی سرگرمی میں اتنی گم ہو جاتا ہے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوشی وہ نہیں جو ہم بار بار کسی چیز کا تعاقب کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ یہ اس میں ہے جب ہم زندگی کے چھوٹے لمحوں میں موجود ہوتے ہیں، اور ان لمحوں کی قدر کرتے ہیں۔

جان پال سارتر جیسے فلسفیوں نے خوشی کے اس پارادوکس کو بہت زیادہ گہرائی سے سمجھا۔ ان کے مطابق، زندگی کا کوئی خاص مقصد یا معنی نہیں ہوتا، اور انسان کو اپنی خوشی خود تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ جب ہم خوشی کے پیچھے دوڑتے ہیں تو ہم اپنی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور خود کو حقیقت سے دور لے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق، خوشی کا تصور صرف ایک دھوکہ ہے جو ہمیں اپنی اصل حقیقت سے دور کرتا ہے۔

خوشی کا یہ جال ہمیں خود کے ساتھ ایماندار رہ کر اور اپنی اندرونی دنیا کو بہتر سمجھ کر ہی چھوٹ سکتا ہے۔ نیال فرانکل (Viktor Frankl) نے اپنی کتاب "میننگ آف لائف” میں لکھا تھا کہ جب انسان اپنی زندگی کا مقصد پہچانتا ہے، تب ہی وہ حقیقی خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوشی کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر کے مقصد کو جاننا ضروری ہے، نہ کہ ہم اسے کسی بیرونی عنصر کے ذریعے تلاش کرتے رہیں۔

آخرکار، خوشی کا یہ جال دراصل ہماری خود کی توقعات اور آرزوؤں کا نتیجہ ہے۔ جتنا ہم خوشی کے پیچھے دوڑتے ہیں، اتنا ہی ہم اسے کھو دیتے ہیں۔ خوشی کا راز یہی ہے کہ ہم اس کے تعاقب کی بجائے زندگی کے چھوٹے اور سادہ لمحوں میں خوشی تلاش کریں، اور یہ سمجھیں کہ خوشی ایک مستقل مقصد نہیں بلکہ ایک ایسا سفر ہے جسے ہم اپنے اندر کی خوشی کو سمجھ کر طے کر سکتے ہیں۔

خوشی کا پارادوکس یہ بتاتا ہے کہ جب تک ہم خوشی کو کسی بیرونی مقصد یا چیز کے ساتھ جوڑتے رہیں گے، تب تک ہم اس جال میں پھنستے رہیں گے۔ اس کے برعکس، اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ خوشی ایک اندرونی کیفیت ہے، تو ہم اسے بغیر کسی کوشش کے پائیں گے، کیونکہ وہ ہمیشہ ہمارے اندر ہی موجود ہوتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے