مغربی میڈیا میں ایران کے بارے میں کوئی بھی بڑی خبر بظاہر صرف ایک سرخی لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک پورے عالمی بیانیے کی عکاسی کرتی ہے۔ حال ہی میں جب امریکہ کے معروف نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی خبر میں ایرانی حملے کو "مہلک ترین” قرار دیا، تو یہ جملہ محض رپورٹنگ کا حصہ نہیں رہا۔ یہ دراصل ایک ایسا غیر اعلانیہ اعتراف تھا جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی، سفارتی اور نفسیاتی سطح پر شکست کا عکس بھی جھلکتا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کی سرخی سکرین پر جھلک رہی تھی کہ، “Israel reels from deadly Iranian strikes.”
یہ خبر اپنے آپ میں خود ایک اعلان ہے کہ صیہونی ریاست اب Untouchable نہیں رہی۔ اور اگر دس یا بیس میزائل پہنچ سکتے ہیں تو اپنی رٹ دکھانے کے لیے یہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے حوالے سے بات کی جائے تو کئی دہائیوں سے پابندیوں کی چکی میں پسنے کے باوجود ایسی عالمی طاقت تک اپنی ہتھیار پہنچا لینا ہی غنیمت ہے۔ اندر سے مار کھاتے ایران کے لیے یقینی طور پر یہ ایک کامیابی ہے کہ صہیونی ریاست جیسی طاقت کو بھی ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔
ایران کو برسوں سے "روگ اسٹیٹ”، "انتہاپسند ریاست” اور "خطرناک طاقت” کے علاوہ ناجانے کیا کیا قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے جوہری پروگرام، خطے میں اس کی پراکسیز، یعنی علاقائی اثراندازی کو اکثر بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ گردانا جاتا رہا۔ یمن، عراق، شام یعنی پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کو ہمیشہ ایک غصیلی ریاست کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور مغربی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا کو دکھایا جائے لیکن اگر وہی مغرب، جو ایران کو عالمی نظام میں غیر ذمہ دار ریاست کہتا ہے، خود اس کی عسکری کارروائیوں کو مہلک ترین قرار دے، تو یہ بات ایک لمحہ فکریہ بن جاتی ہے کہ پابندیوں کے باوجود بھی ایران مہلک کاروائیاں کرنے کے قابل ہو چکا ہے تو پھر کیوں نا تمام معاملات مذاکرات سے حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ نہ صرف تجزیہ کاروں کے لیے، بلکہ پالیسی سازوں کے لیے بھی اس دفعہ ایران کا جواب حیرت انگیز ہے۔
ایران کا یہ نیا چہرہ، فعال، جارح اور اسٹریٹیجک، دراصل ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے۔ پابندیوں، عالمی تنہائی اور معاشی محاصروں کے باوجود ایران نے اپنے آپ کو ایک ایسی طاقت کے طور پر کھڑا کیا ہے جو صرف اپنے دفاع تک محدود نہیں بلکہ دشمن کو جارحیت کا جواب جارحیت سے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور جواب بھی ایسا کہ جس نے کم و بیش تمام عالمی طاقتوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔
اگر ہم ایران کے عسکری ارتقاء کو دیکھیں تو ایک بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ اس نے خود کو جنگ کے روایتی اور غیر روایتی دونوں میدانوں میں ترقی دی ہے۔ ایران اب صرف بیلسٹک میزائلز اور ڈرونز پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اس نے سائبر وارفیئر، انٹیلیجنس نیٹ ورکنگ، اور پراکسی جنگ میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ حزب اللہ، حماس، حوثی ملیشیا اور عراقی شیعہ گروہ ایران کی پراکسیز کی صورت میں خطے میں موجود ہیں۔ جو اگر نقصان کا باعث ایران کے لیے بنے تو کسی حد تک فرنٹ لائنرز بھی ہیں۔
ایران کی یہ عسکری حکمت عملی صرف ہتھیاروں کی دوڑ نہیں، بلکہ ایک بیانیے کی جنگ بھی ہے۔ مغربی میڈیا، جو عمومی طور پر امریکہ یا اسرائیل کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے، جب خود اس حد تک پہنچ جائے کہ ایران کے حملے کو مہلک ترین کہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے جنگ صرف محاذ پر نہیں جیتی بلکہ بیانیے کی سطح پر بھی مغرب کو شکست دی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست ہمیشہ سے پیچیدہ رہی ہے۔ اسرائیل، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مختلف محاذوں پر صف آرا رہے ہیں۔ لیکن ایران کی ایک خاص بات یہ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ محدود وسائل کے باوجود اثرانداز ہونے کا فن اپنایا ہے۔ اگرچہ اس پر امریکہ اور یورپ کی سخت ترین پابندیاں رہیں، مگر اس نے اپنی ٹیکنالوجی، تربیت، اور نیابتی ڈھانچے کو مسلسل بہتر بنایا۔
سی این این کی سرخی صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ مغربی دنیا کے لیے ایک اعلانِ خطرہ ہے۔ وہ ایران کو ہمیشہ ایک محدود اور کمزور ریاست کے طور پر دیکھتے آئے ہیں، لیکن آج وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران نے ایسا حملہ کیا جو مہلک ترین تھا۔ یعنی ایسا حملہ جس کے اثرات صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں، بلکہ پالیسی، سفارت کاری اور نفسیات تک پھیل گئے ہیں۔
مغرب کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایران کا یہ عروج صرف فوجی سطح تک محدود نہیں رہا۔ ایران کے بیانیے کو اب عالمی سطح پر ایک وزن حاصل ہوتا جا رہا ہے، خصوصاً ان خطوں میں جہاں مغربی تسلط نے تباہی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ چاہے وہ شام ہو، عراق، افغانستان یا فلسطین۔ لوگ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کو امن کی ضمانت نہیں بلکہ استحصال کی علامت سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایران کی مزاحمتی زبان لوگوں کو قومی خودمختاری اور نظریاتی آزادی کا پیغام دیتی ہے۔
یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ ایران کی عسکری پالیسی دفاعی ردعمل سے نکل کر فعال جارحانہ پالیسی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے حالیہ حملے نہ صرف ہدف کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ایران کو تنہا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حملے جغرافیہ سے ماورا ہیں، یہ خلیج فارس سے لے کر بحیرہ روم تک ایک تسلسل کا حصہ ہیں جسے ایران نہایت چالاکی سے استعمال کر رہا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سی این این کی سرخی محض صحافتی بیان ہے یا ایک پالیسی سطح کا عندیہ۔ کیونکہ اگر ایران واقعی اتنا خطرناک ہو چکا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مغرب کو اپنی مشرق وسطیٰ پالیسی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ اور اگر یہ صرف ایران کو مزید تنہا کرنے کی ایک کوشش ہے تو یہ چال اب زیادہ دیر کامیاب نہیں رہ سکتی، کیونکہ زمینی حقیقتیں بدل چکی ہیں۔
آج کی دنیا صرف میزائلوں، ڈرونز اور فوجی طاقت سے نہیں چلتی۔ آج کی دنیا بیانیے، رائے عامہ، اور نفسیاتی حکمت عملیوں کی دنیا ہے۔ اور ایران نے ان تمام میدانوں میں مغرب کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اب ایران کو صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اقوام متحدہ، عالمی میڈیا اور علاقائی صف بندیوں میں بھی روکنے کے لیے سرگرم ہیں، مگر ایران ہر میدان میں کامیاب تاثر دینے میں سرِ فہرست ہے۔
اگرچہ ایران کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس کی پراکسی حکمت عملی پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر ایک حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وہ اب عالمی طاقتوں کے لیے ایک ناقابلِ نظرانداز عنصر بن چکا ہے۔
ایرانی قیادت، خصوصاً سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب، جان چکے ہیں کہ انہیں صرف عسکری طور پر نہیں، بلکہ نفسیاتی اور سفارتی سطح پر بھی مغرب کو الجھانا ہے۔ اور شاید اسی حکمت عملی کا ایک مظہر سی این این کی وہ سرخی ہے جس میں انہیں اپنے ہی بیانیے کو بدلنا پڑا۔
اب سوال یہ ہے کہ مغرب اس حقیقت کو تسلیم کرے گا یا پھر روایتی ہتھکنڈوں سے ایران کو روکنے کی ناکام کوششیں جاری رکھے گا؟ کیونکہ ایران اب صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک حکمت عملی اور ایک پیغام بن چکا ہے. اور یہ پیغام ہر اُس مقام پر گونج رہا ہے جہاں ظلم، قبضے، اور استعماری رویوں کے خلاف مزاحمت پنپ رہی ہے۔
دوسری جانب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب ایران کو اپنا نقطہء نظر کسی نا کسی حد تک نا صرف علاقائی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ کیوں کہ جس انداز سے اعلیٰ عکسری و سول قیادت ایران کے اندر نشانہ بن رہی ہے اس نے ایران کے اندرونی انتظامی ڈھانچے کی قلعی کھول دی ہے۔ اور عیاں کر دیا ہے کہ آپ دنیا میں اپنی پراکسیز کو مضبوط کرنے میں اتنے مصروف ہو گئے کہ اپنے ملک کو لگی دیمک کو ختم کرنے کا آپ کے پاس وقت نہیں رہا۔ جس ملک میں اپنی ہی قیادت محفوظ نا ہو اور چن چن کر نشانہ بنائی جا رہی ہو وہ ملک کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کر سکے گا۔