"وہ نہیں، تو پھر کون؟”

یوں تو ہمارے ملک میں ہر بات پر نقطہ چینی کرنا قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ بندہ اگر چھینک بھی مار دے تو یہ بھی کسی سازش کا حصہ ہے۔ سو، جب ہمارے آرمی چیف صاحب امریکہ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، تو یار لوگوں کے منہ میں جیسے اسہال کا عارضہ لاحق ہوگیا ہر طرف سے اعتراضات کی جھڑی لگ گئی:
"وہ کیوں گیا؟”
"کس حیثیت میں گیا؟”
"کیا سیاست دان مر گئے تھے؟”

کوئی مجھےبتائے اگر آرمی چیف نہ جاتا، تو کون جاتا؟
وہی سیاست دان جن کے پاس صرف وقت ہوتا ہے، کوئی علم کوئی تیاری نہیں ھوتی؟
یا وہ جنہیں ملک کا نقشہ دیا جائے تو الٹا پکڑ لیتے ہیں۔

اب ذرا غور سے دیکھیے کہ ایک آرمی چیف کس خاک اور خمیر میں مل کر گل و گلزار ھوتا۔ کس بھٹی میں کندن بنتا ھے اورکسی کڑی تپسیا گزرتا ہے۔ یہ کوئی نکاح کے فوراً بعد سسر کے بزنس میں ڈائریکٹر لگنے والی پوسٹ نہیں۔ یہ وہ عہدہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے بندہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں سینے پر پتھر رکھ کر کھچائی برداشت کرتا ہے۔ دھول، تھکن، گولی، بم، بارود سے دوستی کرتا ہے۔ کپتان سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کا سفر میدانِ جنگ، تربیت، بیرونِ ملک کورسز، جنگی حکمتِ عملی، اور کڑک چائے کے ساتھ طے کرتا ہے۔ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اور درجنوں بین الاقوامی کورسز میں دشمن کو شکست دینے کے طریقے ازبر کرتا ہے۔ ہر قدم پر اس کی نہ صرف ذہانت ، بلکہ ساکھ، بصیرت، وفاداری اور حبّ الوطنی کی پرکھ ہوتی ہے۔
اور وہ کسی ایک محاذ کا ماہر نہیں ہوتا وہ سیکیورٹی، معیشت، سفارت کاری، انٹیلیجنس، ٹیکنالوجی، اور عالمی تعلقات تک کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ وہ صرف فوج کا سربراہ نہیں ہوتا، وہ ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جسے دنیا کے بڑے ممالک بڑی سنجیدگی سے سنتے ہیں۔

اس کے پاس جذبات کی بجائے تجزیہ ہوتا ہے، بیانیوں کی بجائے بریفنگ ہوتی ہے، اور تقریروں کی بجائے معلوماتی رپورٹس۔ اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس ملک سے کب کیا بات کرنی ہے، اور کیسے کرنی ہے۔

اب بتائیں، اتنی فلٹرنگ کے بعد چھن کر نکلنے والا شخص امریکہ جا کر ملک کی نمائندگی کا اہل ہے یا… وہ حضرات جنہوں نے صرف جلسے جلوسوں میں مائیک سنبھالا اور باقی وقت مصروفِ بیان بازی رہے ہوں؟

ہمارے ہاں سیاست دان کی قابلیت کا معیار کبھی کبھی اتنا "عوامی” ہو جاتا ہے کہ اگر وہ تقریر میں صرف دو بار انگریزی بول لے، تو کہا جاتا ہے: "دیکھو! کتنا پڑھا لکھا ہے!”
باقی ملک کی معیشت، خارجہ پالیسی، یا قومی وقار سے کوئی سوال کر لو، تو وہی پرانی فائلیں کھل جاتی ہیں: “سازش، مہنگائی، اور پچھلی حکومت کی غلطیاں!”

ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت وہ کوچوان ہے جنہیں نہ گھوڑوں کا پتہ ہے نہ راستے کا، بس کوڑا ہاتھ میں ہے اور نعرے زبان پر۔ کبھی انقلابی بنتے ہیں، کبھی مفاہمتی، کبھی دیسی کپڑوں میں عوامی، کبھی مہنگے سوٹ میں سفارتی۔

کچھ حضرات تو ہر مسئلے کا حل "اپوزیشن کی سازش” یا "میڈیا کی منفی رپورٹنگ” میں تلاش کرتے ہیں، جیسے ان کا واحد دشمن صرف سوال کرنے والا صحافی ہو۔ اور کچھ کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں تقریر کا وقت پانچ منٹ کا ہوتا ہے یا پینتالیس۔

ایک وقت تھا کہ عزت دار آدمی کوئی الزام ہی لگنے پر شرم سے مر جاتا تھا۔ اب الزامات کے بعد اگلا جلسہ، اگلا نعرہ اور اگلا ٹرینڈ تیار ہوتا ہے۔ الزام آج کل انتخابی مہم کا پہلا صفحہ بن چکا ہے۔

برادران ملت سوال یہ نہیں کہ آرمی چیف کیوں گیا؟
اصل سوال یہ ہونا چاہیے: اور کون جاتا؟
یہ وہ شخص ہے بلکہ وہ واحد شخص ہے جو نہ صرف فوج کا بلکہ پوری قوم کا نمائندہ بن کر بین الاقوامی میدان میں پاکستان کی عزت اور ساکھ کو سنبھال سکتا ہے۔
اور جناب اب دنیا آپ کو صرف تب سنجیدگی سے لیتی ہے جب آپ کا نمائندہ بھی ایک سنجیدہ شخصیت ہو ۔

کیا وہ جاتے جنہیں ابھی تک نہیں معلوم کہ IMF کا مطلب "I’m My Father” نہیں ہوتا؟
یا وہ جاتے جو باھر جاکر کر بھی ملک کا امیج بنانے کے بجائے کبابوں کی تلاش میں سرگرداں رھتے ہیں

ہاں البتہ اگر امریکہ میں سری پائے، اوجڑی، نہاری، یا کھدوں کے حوالے سے کوئی تحقیقی سیمینار منعقد ہو رہا ہوتا تو اس موضوع پر ہمارے پاس ایک دو بہت ہی قابل افراد موجود ہیں انہیں کو۔ بھیجتے

بات بالکل سیدھی سی ہے:
جب ملک کی ساکھ کا سوال ہو، تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ “کیوں گیا؟”
بلکہ سوال یہ ہوتا ہے:

"وہ نہیں، تو پھر کون؟”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے