ایران: معاشرہ، تاریخ، جغرافیہ، سیاست، معیشت، ثقافت نیز ایران کی علاقائی اہمیت اور تازہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال

مجھے بچپن سے اسلامی دنیا کی جن قوموں کے باوقار، شجاع، وجہہ، خود دار، ذہین و فطین، مہذب اور شائستہ باصلاحیت اور خوبصورت ہونے کا گہرا تاثر ملا ہے ان میں ترکی اور ایرانی اقوام شامل ہیں۔ میں نے اپنی گہری دلچسپی کے سبب بے شمار مرتبہ ان کے چہروں کو دیکھا، ان کے لباس و پوشاک پر توجہ مرکوز کی، ان کے ماکولات و مشروبات کے حوالے سے ذوق کا جائزہ لیا، ان کے لہجوں کو سنا، ان کے باڈی لینگویج کو ملاحظہ کیا اور بے اختیار ان دونوں اقوام کی قد کاٹھ، رنگ و روپ، صحت و تندرستی، شخصیت و وجاہت، عادات و اطوار، سماجی روایات اور عمومی رجحانات سے مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ تو ایسے لوگ ہیں جن کا سانچہ میرے دل میں نصب ہے۔

ایرانی قوم کھانے پینے اور اپنی صحت و تندرستی کے اعتبار سے نہایت اعلی ذوق کے حامل ٹھہری ہے۔ ایرانی لوگ دودھ دہی، فروٹ ڈرائی فروٹ، سلاد اور تازہ سبزیاں، پلاؤ، جوسز اور قہوہ جات سے بے حد رغبت رکھتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے محتاط اور عام عادات و اطوار کے حوالے سے نفیس لوگ ہیں تاہم علاج معالجے کی سہولیات شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں نہیں بلکہ دونوں دائروں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ شہری علاقوں میں جدید طبی سہولیات تک رسائی زیادہ ہے، جبکہ دیہات میں روایتی علاج معالجہ (جڑی بوٹیاں، طب یونانی وغیرہ) اب بھی مقبول ہے۔

ایرانی معاشرے میں کباب، پلاؤ، دودھ، دہی، فروٹ اور سبزیاں صحت و تندرستی کے لیے مفید سمجھی جاتی ہیں، ایرانی لوگ اگر چہ مجموعی طور پر صحت مند ہوتے ہیں لیکن آج کل مغربی فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال اور جسمانی سرگرمیوں میں واضح کمی کی وجہ سے موٹاپے اور ذیابیطس جیسے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

ایرانی لوگ اپنی مہمان نوازی، نفاست پسندی، خوش گفتاری اور جذباتی وابستگی کے لیے کافی مشہور ہیں۔ وہ رسم و رواج کا بہت خیال رکھتے ہیں، خاص طور پر بزرگوں کے احترام اور خاندانی تعلقات کو خاص فوقیت دیتے ہیں۔ ایرانی لوگ گفتگو میں شاعرانہ انداز اور اسلوب استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، جدید رجحانات سے نئی نسل کے ذوق و مزاج میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔ انہی تبدیلیوں کے زیر اثر اب کھلے پن بلکہ کافی حد تک بے باکی کا میلان بڑھ رہا ہے۔

ایران کے ثقافتی منظر نامے پر مذہب (اسلام، خاص طور پر شیعہ روایات) اور قدیم فارسی تہذیب کا امتزاج نمایاں ہے۔ عاشورا اور نوروز جیسے تہوار سماجی یکجہتی اور تحرک کے آئینہ دار ہیں۔ ایران میں خاندان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اور خوشی و غمی کے تمام تر مواقع میں رشتہ داروں کی شرکت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ تاہم آج کل، معاشی دباؤ اور جدیدیت کے نوع بہ نوع اثرات کی وجہ سے کچھ روایات جیسا کہ بڑے خاندانی نظام وغیرہ میں متواتر تبدیلیاں آرہی ہیں۔

ایرانیوں میں تعلیم کا ذوق و شوق نمایاں طور پر موجود ہے، خاص طور پر خواتین میں تعلیمی شرح قابل رشک حد تک زیادہ ہے۔ اس طرح نوجوان نسل میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی رجحانات سے وابستگی مسلسل بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں روایتی اقدار اور جدید خیالات کے درمیان گہری کشمکش دیکھنے کو ملتی ہے۔ تعلیمی اداروں اور سیاسی اجتجاجوں میں یہ فرق زیادہ نمایاں ہو کر نظر آتا ہے۔ عالمی معاشی پابندیوں اور بے روزگاری کے چیلنجز نے اگر چہ ایران کی مشکلات میں بے حد اضافہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود، ایرانی قوم کاروباری اور تخلیقی شعبوں (جیسا کہ جدید ٹیکنالوجی اور آرٹ) میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔

ایرانی معاشرہ ایک متحرک اور پیچیدہ ثقافتی تانے بانے سے بنا ہے، جہاں قدیم روایات اور جدید تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش جاری ہے تاہم ذہنی اور نفسیاتی طور پر مختلف طبقوں میں فاصلے موجود ہیں لیکن ایرانی قومیت کو بہر صورت غلبہ اور قبولیت حاصل ہے۔ ایرانی لوگوں کی لچک دار روش، اپنی تاریخ سے جذباتی وابستگی، علوم و فنون سے والہانہ محبت، شخصی وقار اور مضبوط خاندانی نظام ان کی پہچان ہے، لیکن وہ بتدریج عالمی تغیرات کے سبب اپنے اندر تبدیلیاں بھی لا رہے ہیں۔

ایران بنیادی طور پر ایک پہاڑی اور صحرائی ملک ہے۔ ملک میں کئی پہاڑی اور صحرائی سلسلے موجود ہیں۔ لبرز اور زاگرس پہاڑی سلسلے ملک کے اہم پہاڑی اور ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں۔ اس طرح ڈیموند پہاڑ (5,610 میٹر) ایران کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس طرح دشتِ کویر اور دشتِ لوت خشک اور غیر آباد صحرائی علاقے ہیں۔ اس طرح آبی ذخائر کیسپین سمندر (دنیا کا سب سے بڑا جھیل) اور خلیج فارس ایران کے اہم آبی وسائل ہیں۔ دریائے کارون ایران کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس طرح ایران میں بالعموم خشک اور نیم خشک آب و ہوا پائی جاتی ہے، تاہم شمالی علاقوں میں موسم معتدل ہوتا ہے۔

ایران، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جنوب مغربی ایشیاء کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ اپنی قدیم تہذیب، وسیع و عریض تیل و گیس کے ذخائر، متنوع ثقافت اور علاقائی سیاست میں اہم اور محوری کردار کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایران کا دارالحکومت تہران ہے، جو کہ ملک کا سب سے بڑا شہر اور سیاسی و معاشی مرکز بھی ہے۔ ایران کا کل رقبہ ساڑھے سولہ لاکھ مربع کلومیٹر اور ابادی تقریباً ساڑھے نو کروڑ کے آس پاس ہے۔ ایران میں ایرانیوں کے علاؤہ بڑی تعداد میں ترک، بلوچ اور افغان بھی بستے ہیں۔ ایران کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، جو کہ اپنے دامن میں دنیا کی کئی وقیع اور قدیم تہذیبوں کا اثاثہ رکھتی ہے۔

ایران کی تہذیبی تاریخ کا جائزہ لیں تو عیلامی تہذیب (3200 ق م) واضح نظر آتی ہے، یہ ایران کی ابتدائی تہذیب تھی۔ اس طرح ہخامنشی سلطنت (550–330 ق م) دنیا کی پہلی باقاعدہ عظیم سلطنت تھی، جسے سائرس اعظم نے قائم کیا تھا۔ اس دور میں پرسپولیس جیسے عظیم الشان آثار تعمیر ہوئے۔ بعد ازاں سکندر اعظم نے ہخامنشی سلطنت کو فتح کیا، جس کے بعد سلوقی اور پھر پارتھی حکمرانوں نے ایران پر حکومت کی۔ اس تسلسل میں ساسانی سلطنت (224–651 عیسوی) ایران کا آخری عظیم قبل از اسلام دور تھا، جس میں زرتشتی مذہب کو غلبہ حاصل تھا۔ 637 عیسوی میں مسلمانوں نے ایران فتح کیا اور یہاں تیزی سے اسلام پھیلا۔ اس طرح صفوی سلطنت (1501–1736) نے ایران کو ایک شیعہ ریاست بنایا، جو کہ آج تک ایران کی خاص شناخت ہے۔ قاچار خاندان (1796–1925) کے دور میں ایران کافی کمزور ہوا اور اس پر برطانیہ اور روس اثرانداز ہوئے۔

1925 میں رضا شاہ پہلوی نے پہلوی خاندان کی بنیاد رکھی اور جدید ایران کی تعمیر شروع کی یہ خاندان بڑا آمریکہ نواز تھا اور ایسی ایسی اصلاحات نافذ کیں جو ایرانی معاشرے نے قبول نہیں کیں اور یوں اس خاندان کے خلاف عمومی سطح پر سخت بے چینی پھیل گئی۔ انہی بے چینیوں اور کشاکش سے انقلاب نے جنم لیا۔

1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران ایک اسلامی جمہوریہ بنا لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایران عراق جنگ (1980–1988) نے ملک کو شدید طور پر متاثر کیا۔ اسی جنگ نے پورے مشرق وسطی کو ایک گہری کشمکش کا میدان بنایا۔ وہ دن اور آج کا دن مشرق وسطی کو ایک دن کا سکون پانا بھی نصیب نہیں ہوا۔ جنگیں ہیں، نفرتیں ہیں، شازشیں ہیں، دفاعی اخراجات ہیں اور ایک خطرناک مستقبل جس کی طرف پورا خطہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

21ویں صدی کے آغاز سے ہی ایران اپنے جوہری پروگرام کا آغاز کیا اور بار بار اس حوالے سے دنیا کو یقین دلایا کہ صرف اور صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور یہ کہ ایٹمی ہتھیار بنانا ہمارے پیش نظر نہیں لیکن دنیا بالخصوص امریکہ اور یورپ اس جوہری پروگرام کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایران اپنے جوہری پروگرام، علاقائی تنازعات میں فعال شمولیت اور امریکی معاشی پابندیوں کے سبب عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ مشرق وسطی میں اسرائیل اور ایران کو شدید ترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔ اس حریفانہ کشاکش کی تازہ کڑی یہ ہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایران نے بھرپور جوابی حملہ کیا جس سے باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔

گزشتہ دس دنوں سے اسرائیل اور ایران ایک دوسرے سے بھرپور انداز میں برسر پیکار ہیں۔ دونوں جانب شدید نقصانات ہو رہے ہیں جبکہ 22 جون کو آمریکہ نے بھی اسرائیل کی حمایت میں ایران پر حملہ کرتے ہوئے اس کے تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جبکہ ایران نے ردعمل میں گزشتہ رات قطر، عراق، بحرین اور شام میں موجود آمریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاؤہ ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ ایران کے ان تازہ اقدامات سے خطے میں شدید تشویش پھیل گئی ہے۔

ایران ایک اسلامی جمہوریہ ہے، جہاں مذہبی اور جمہوری ادارے مل کر امور حکومت چلاتے ہیں۔ آئیے ایران کے سیاسی ہیئت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

موجودہ سیاسی نظام میں مرکزی کردار رہبرِ انقلاب (سپریم لیڈر) کا ہوتا ہے۔ ان کا عہدہ سب سے طاقتور اور محوری حیثیت کا حامل ہے، 1989 سے، آیت اللہ خمینی کی وفات پر آیت اللہ سید علی خامنہ ائی اس اہم ترین عہدے پر فائز ہیں۔ کچھ عرصے سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو مسلسل آیت اللہ علی خامنہ ائی کو قتل کرنے کی دھمکی دے رہا ہے، چند روز قبل آمریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ سپریم لیڈر نے اپنے قتل خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تین شخصیات کو ممکنہ طور پر اپنے جانشین کے طور پر نامزد کیے ہیں۔ صدر حکومت کا سربراہ ہوتا ہے جو کہ فی الحال پزشکیبان ہیں۔ اس طرح مجلسِ شورائے اسلامی کے نام سے ایران کی پارلیمنٹ کام کر رہی ہے، جس کے ارکان عوامی ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ اس طرح مجلسِ خبرگان رہبری کے نام سے ایک اور آئینی ادارہ موجود ہے جو کہ رہبر انقلاب کے انتخاب اور نگرانی کی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔

ایران کے خارجہ تعلقات مغربی ممالک (خاص طور پر امریکہ) اور اسرائیل کے ساتھ سخت کشیدہ ہیں، لیکن چین، روس اور کئی دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ اچھے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات ملے جلے ہیں کبھی اچھے کبھی برے، کبھی تلخ کبھی شیریں لیکن یہ حقیقت ہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی نوعیت پیچیدہ اور تاریخی ہے تاہم ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے وحشیانہ حملوں پر سعودی عرب نے پر زور مذمت کی ہے۔ چند روز قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بیان دیا کہ پوری امت ایران کی پشت پر کھڑی ہے اور اسرائیل کے حملوں عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور ان کو ایران کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف قرار دیا۔ ایران طویل عرصے سے شیعہ مزاحمتی محور (ایران، عراق، شام، لبنان، یمن) کی قیادت کر رہا ہے جس میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصے میں شدید صدموں سے گزرا۔ یہ محور مشرق وسطی میں کئی تنازعات بنانے، ابھارنے اور ان میں حصہ دار بن گیا ہے۔ یاد رہے یہ محور ایران اور عرب ممالک کے درمیان خوش گوار تعلقات میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

ایران کی معیشت زیادہ تر تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہے، جو کہ اس کی برآمدات کا تقریباً 80 فیصد ہیں۔ دنیا میں ایران کے پاس تیل کا چوتھا سب سے بڑا اور گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس طرح زراعت کے شعبے میں گندم، چاول، کھجور اور پستہ اہم فصلیں ہیں۔ اس طرح صنعتی شعبے میں پٹرولیم کیمیکلز اور ٹیکسٹائل اہم صنعتیں ہیں۔ ایران طویل عرصے سے امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے جو کہ ایرانی معیشت پر دباؤ کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی بڑی علتوں میں سے کرپشن اور ناکارہ انتظامی ڈھانچہ سر فہرست ہیں۔ اس مسئلے کا ایران کو بھی سامنا ہے۔ یہ مسئلہ ایران کے معاشی ترقی میں ٹھیک ٹھاک رکاوٹ ہے۔ اس کے علاؤہ مہنگائی اور بے روزگاری بھی ایران کے بڑے مسائل ہیں۔ ایرانی قوم مجموعی طور پر اگر چہ محب وطن اور باوقار ہے لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں دشمن ممالک کو اس سے ایجنٹس دستیاب ہوتے ہیں اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے لوگ کلیدی عہدوں اور حیثیتوں کے حامل ہے۔ مختلف ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں ایران کو زیادہ نقصان انہیں ایجنٹوں کے ذریعے پہنچا ہے۔ غیر ملکی ایجنٹوں کے نیٹ ورکس کے خلاف اب اگر چہ حکومتی کاروائیاں زور و شور سے جاری ہیں اور گزشتہ چند دنوں میں کئی لوگوں کو پھانسی دے دیا گیا ہے لیکن ایران کو ایسے عناصر کے ہاتھوں بڑا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی اتنی جلدی ممکن نہیں۔ ایران اپنے جاسوسی شعبے کی تطہیر پر خاص توجہ دیں، اپوزیشن سے ضروری نرمی برتے اور غیر ضروری سختی سے گریز کریں نیز ہمسایہ اسلامی ممالک سے دوستانہ روابط بنانے کو اپنا سفارتی مشن بنا دیں تو امید ہے کہ ایران کی طاقت اور عزت میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا۔

ایران کی ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے اور اس میں فارسی زبان، ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ کو خاص مقام حاصل ہے۔ ایران کی قومی زبان فارسی ہے۔ اس کے علاؤہ عربی اور بلوچی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔

مذہبی اعتبار سے 90 فیصد سے زائد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ نوروز ( جو کہ نئے سال کے آغاز پر منایا جاتا ہے) ایران کا سب سے بڑا سماجی تہوار ہے۔ اس طرح ادب میں حافظ، سعدی، اور فردوسی جیسے شعرا عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اس طرح پکوانوں میں کباب، قورما سبزی، اور زرشک پلاؤ کافی مشہور ہیں۔

ایران مشرق وسطی کی ایک اہم فوجی اور دفاعی طاقت ہے اور اس کا دفاعی نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔

میزائلوں کا وسیع ذخیرہ رکھتا ہے، روس اہم دفاعی شراکت دار ہے۔ ایک زمانے سے اسرائیل کو ناقابلِ شکست اور ناقابلِ رسائی جدید ترین دفاعی طاقت سمجھا جاتا رہا۔ تاریخ میں پہلی بار ایران نے اسرائیل کو اپنے میزائلوں سے کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا کہ جس سے وہ ٹھیک ٹھاک چکرا کر رہ گیا اور اس کے رعب اور دبدبے کو خاک میں ملا دیا۔ آگے بھی معلوم نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان برپا جنگ کیا شکل اختیار کر رہی ہے لیکن اس سے ایران نے اپنے آپ کو ایک مضبوط دفاعی طاقت کے طور پر منوا لیا اور اس اسرائیلی دفاعی خمار کو اتارنے میں زبردست کامیابی حاصل کی جس میں وہ عشروں سے مبتلا تھا۔ ایرانی فوج دو حصوں پر مشتمل ہے ایک باقاعدہ فوج ہے اور دوم پاسداران انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ فوج نہایت طاقتور سمجھی جاتی ہے۔ دونوں افواج کا نظام ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہے۔

ایران کے پاس جدید ترین میزائل پروگرام ہے جو کہ کافی وسیع، متنوع اور طاقتور ہے حالیہ جنگ میں اس کے مختلف اقسام اور ورژن لوگوں کے علم میں آئے ہیں اور جن کا اسرائیل کے خلاف کھلم کھلا استعمال عمل میں آیا ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام اگر چہ عالمی سطح پر متنازعہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایران کا کہنا ہے کہ یہ خالصتاً پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اسرائیل کو دراصل ایران کے جوہری پروگرام نے حواس باختہ کیا ہے جبکہ آمریکہ اور اسرائیل دونوں اس پروگرام کو ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن دوسری طرف ایران ڈٹا ہوا ہے کہ بہر صورت اپنے پُرامن جوہری پروگرام کو تکمیل سے ہم کنار کر کے دم لوں گا۔

ایران خلیج فارس، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اہم ترین جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی اہمیّت کے علاؤہ ایران کی سیاسی، دفاعی اور تجارتی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ ایران کے روس، چین، لبنان عراق اور یمن کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب سے ایران کے تعلقات اگر چہ زیادہ قابلِ رشک نہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ایران کی شدید مخاصمت جاری ہے اور گماں یہی ہے کہ یہ جاری رہے گی۔

اسرائیل اور ایران کی حالیہ جنگ نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو ایک شدید مخمصے میں ڈال دی ہے۔ ہر گزرتا دن جاری صورتحال کو مزید پیچیدہ کر رہا ہے۔ ٹرمپ جو کہ واحد سپر پاور کے صدر ہیں نہایت غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں معاملات چلاتا ہے۔ صبح کچھ کہتا ہے شام کو کچھ کہتا ہے، آج کچھ کہتا ہے کل کچھ کہتا ہے اور سنجیدہ معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے میں لگا نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف آمریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت میں جنگ کے اندر کود پڑا ہے جبکہ دوسری طرف چین اور روس نے ایران کا ساتھ دینے کا عزم کیا ہے جبکہ پاکستان اور سعودی عرب نے بھی اسرائیل کی جارحیت کی شدید مذمت اور ایران کی اپنی خودمختاری میں جاری کاروائیوں کی اصولی حمایت کی ہے۔

ایران ایک قدیم تہذیب، وسیع قدرتی وسائل اور گہری سیاسی و ثقافتی تاریخ کا حامل ملک ہے۔ اگرچہ ایران بین الاقوامی پابندیوں اور اندرونی چیلنجز کا بری طرح شکار ہے، لیکن اس کی علاقائی اہمیت اور دفاعی صلاحیتیں اسے مشرق وسطیٰ کی سیاست کا ایک اہم کھلاڑی بناتی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مستقبل میں ایران کا کردار اس خطے کے امن اور استحکام کے لیے نہایت اہم ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے