سٹریٹجک پیریٹی: سینٹ کام پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان کر دیا

ایک ڈرامائی موڑ کے تحت، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ—جنھوں نے اس سے قبل ایران کی تین اہم نیوکلیئر تنصیبات، فردو، نطنز، اور اصفہان پر فضائی حملوں کا حکم دیا تھا اور ان حملوں کو کامیاب قرار دیا تھا — اب اعلان کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا جب ایران نے قطر میں امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے ہیڈکوارٹر، العدید ایئر بیس، پر غیرمعمولی بیلسٹک میزائل حملہ کیا۔
نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کرنے کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے انھیں تاریخی طور پر مکمل کامیاب قرار دیا تھا اور ساتھ ہی ایران کو خبردار کیا تھا کہ ایران کی کسی بھی جوابی کارروائی کے “سنگین نتائج” ہوں گے، لیکن ایران نے امریکی عسکری وقار یعنی “سینٹ کام” کے ہیڈ کوارٹر پر میزائل داغے۔ امریکہ پر پڑنے والی یہ علامتی ضرب بظاہر تمام فریقین کو ڈی ایسکیلیٹ کرنے اور کشیدگی کے خاتمے کی طرف دھکیلنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے، مگر صورتِ حال اب بھی نازک ہے۔

تاہم ایرانی مؤقف کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر دی گئی “جنگ بندی کی تجویز” دراصل ایک من گھڑت اور یکطرفہ دعویٰ ہے، جس کا مقصد واشنگٹن کی حالیہ عسکری اور سٹریٹیجک رسوائی سے توجہ ہٹانا ہے۔

اسی تناظر میں ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، نہ کہ ایران نے، اور اس وقت تک کوئی باقاعدہ جنگ بندی طے نہیں پائی۔ عراقچی کے مطابق اگر اسرائیل کی جارحیت تہران کے وقت کے مطابق صبح چار بجے تک رک گئی، تو ایران بھی مزید کوئی قدم نہیں اٹھائے گا، تاہم حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، ایک نڈر اور واضح پیغام دیتے ہوئے، ایران نے دو اہم امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل داغے: قطر میں العدید ایئر بیس—جو امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کا علاقائی ہیڈکوارٹر ہے—اور عراق کے مغربی علاقے میں عین الاسد ایئربیس۔ یہ حملے ان جاری کشیدگی کے ردعمل میں کیے گئے جو اس ماہ کے آغاز میں ایران اور اسرائیل کے درمیان چھڑنے والی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ آج کے حملوں کے ذریعے تہران نے ٹرمپ انتظامیہ کو نہایت واضح پیغام دیا ہے: ایران تصادم سے نہیں گھبراتا، اور اگر مجبور کیا گیا تو وہ امریکی طاقت کا براہ راست مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

سینٹ کام کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنانے کی علامتی حیثیت بہت گہری ہے۔ العدید محض ایک ایئر بیس نہیں بلکہ امریکی فوجی قوت کے اُس نظام کا مرکز ہے جو مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے—جس میں عراق، شام، خلیج، اور یہاں تک کہ پاکستان بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز کے معروف صحافی ڈیوڈ سینجر نے ماضی میں کبھی لکھا تھا: “سینٹ کام، خطے میں امریکی طاقت کے پھیلاؤ کا مرکزِ ہے۔” ایسے مرکز کو — محض علامتی طور پر ہی سہی — نشانہ بنانا ایک دلیر سیاسی پیغام ہے: ایران امریکی دھمکیوں کا سامنا کرنے سے گھبراتا نہیں ہے۔

اس میں بہرحال کوئی شک نہیں کہ امریکہ بدستور دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، جو کسی بھی مقام پر اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور امریکہ کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتا ہے۔ مگر خلیج فارس جیسے حساس اور معاشی طور پر اہم خطے میں، ایک جنگ آزمودہ اور مکمل طور پر مخصوص میزائل قوت سے لیس ایران سے ٹکرانا محض عسکری خطرہ نہیں، بلکہ عالمی معیشت کی بنیادوں کو ہلا دینے والا سٹریٹیجک تباہی کا خطرہ بھی ہے۔
پیر کی دوپہر (امریکی مشرقی وقت کے مطابق)، ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغے، اور میڈیا ادارے “ایکسیوس” (Axios) کے مطابق، دارالحکومت دوحہ کے اوپر دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس حملے کے جواب میں قطر نے اپنی فضائی حدود “تاحکم ثانی” بند کر دی گئی تھی، جبکہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی۔ ایسے میں اگر جنگ آبنائے ہرمز سے حیفا تک پھیلتی تو دنیا کو معاشی تباہی کے دہانے تک لے جانے کا خدشہ حقیقی ہوتا۔

تاہم ایرانی حملے ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ نے انھیں ایران کے ساتھ سٹریٹجک پیریٹی (strategic parity) کے طور پر قبول کیے اور “سنگین نتائج” رد عمل نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے ان حملوں کے باوجود تیل کی قیمتوں میں سات فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے، اور WTI crude کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی ہے۔ “بلومبرگ” (Bloomberg) کے تجزیہ کار خاویر بلاس کے مطابق، مارکیٹ ایران کے میزائل حملے کو ایک “علامتی جوابی کارروائی” کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ آبنائے ہرمز اب بھی کھلی ہے اور تیل کی ترسیل جاری ہے—جس میں ایران کے خرگ جزیرے (Kharg Island) سے نکلنے والا تیل بھی شامل ہے۔

اسی تناظر میں، ایران کا سینٹ کام (CENTCOM) پر میزائل حملہ محض ایک عسکری چال ہی نہیں، بلکہ ایک علامتی اور نفسیاتی سطح پر واشنگٹن کے لیے سٹریٹیجک ذلت ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ کی ناقابلِ تسخیر عسکری شبیہ کو دھچکا پہنچتا ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت کے فیصلے کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے— یہ سب کچھ ایسی جنگ میں ہوا جو اب تک اسرائیل کی زبردست عسکری ٹیکٹیکل کامیابی تو دکھا رہی تھی، مگر جس میں اسرائیل کی کوئی سٹریٹیجک کامیابی نہیں آتی ہے۔ ایران-اسرائیل جنگ جتنا طول پکڑ رہی تھی یہ اسرائیل کے لیے اُتنی ہی تباہ کن بن رہی تھی۔

جیسا کہ اسرائیلی دفاعی تجزیہ کار عاموس ہارل نے ہارٹز (Haaretz) میں اعتراف کیا: “اسرائیل نے ایران کی دفاعی صلاحیت اور جوابی حملے کی طاقت کو کمزور سمجھا تھا۔” 13 جون کو ایران کی فوجی قیادت ہلاک ہو گئی تھی اور ایسا لگا کہ ایران تتر بتر ہو جائے گا لیکن ایران کمال ریزیلیئنس (resilience) سے دوبارہ اُٹھا اور پوری قوم اسرائیل کے خلاف متحد ہو گئی۔ پھر ایران کے میزائل حملوں کے نتیجے میں تل ابیب، حیفا، اور دیگر بڑے اسرائیلی شہر شدید تباہی کا شکار ہوئے۔

امریکہ نے گزشتہ ہفتے بی-2 (B-2) بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے مختلف مراکز—بشمول فردو میں زیرِ زمین نیوکلیئر تنصیبات—پر جو حملے کیے تھے، ان کے بعد پیدا ہونے والا توازن نہایت خطرناک تھا۔ لیکن پیر کے روز ایران کا جوابی حملہ، اگرچہ نقصان کے لحاظ سے محدود تھا، لیکن اس نے ایک نئی اصطلاح کو جنم دیا ہے:

“سٹریٹیجک برابری” (strategic parity)—یعنی عسکری طاقت کے پیمانے پر نہیں، بلکہ مزید جنگ کو روکنے کی نفسیات کی سطح پر امریکہ کے سامنے برابری حاصل کر لی۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ علاقائی توازن بگاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر ضرورت پڑے تو امریکی مفادات کے قلب پر وار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ ایران چاہتا تو خلیج میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز کو بھی میزائل مار کر تباہ کر سکتا تھا لیکن اس نے جنگ کو ناقابل واپسی موڑ تک لینے جانے سے گریز کیا۔

اگر امریکہ اس نئی ابھرتی ہوئی سٹریٹیجک برابری کو توڑنا چاہتا ہے، تو اسے مکمل جنگ چھیڑنی ہوگی—مگر اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ جیسا کہ ایرانی ریاستی ٹی وی پر ایک مبصر نے صاف لفظوں میں کہا: “امریکہ تیل سے بھرے بارود کے ڈھیر پر جنگ لڑے گا۔ یہاں ہر داغا گیا میزائل، عالمی معیشت کی ایندھن کی سپلائی لائنز کو ہدف بنائے گا۔”

اس وقت امریکہ کے سامنے انتخاب واضح ہے: یا تو علاقائی استحکام کی طرف بڑھے، یا ایک طویل اور مہنگی جنگ میں کود کر عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دے۔ تہران کا موجودہ پیغام بالکل دو ٹوک ہے: مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کی غیر متنازعہ عسکری بالادستی کا دور ختم ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیلی جنگ تھی۔ اب امریکہ کے حمایت یافتہ اسرائیل کو وہاں بھی جنگ بندی قبول کرنا ہوگی۔

اب بالادستی نہیں، سٹریٹیجک برابری ہی نیا معیار ہے جس میں چین اور روس کی پس پردہ سفارت کاری بھی شامل ہے۔ اور خطے میں اس طاقت کے نئے توازن کے ساتھ، ایران اب JCPOA (جوہری معاہدے) کی بحالی یا اسی نوعیت کے کسی معاہدے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گا — ایسا معاہدہ جو باہمی احترام اور مساوی حیثیت کی بنیاد پر ہو، نہ کہ وہ سخت گیر اور یکطرفہ شرائط جو کبھی ٹرمپ اور نیتن یاہو ایران پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ یہی ایران کی جیت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے