مغرب کا اخلاقی دیوالیہ، پیشگی اطلاع، اور ایران کی قطر میں سینٹ کام پر جوابی کارروائی

گزشتہ رات ایران نے قطر میں امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے لاجسٹک ڈیپو پر جو حملہ کیا، وہ محض ایک فوری عسکری ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی (long-term strategic rationale) کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ حملہ اس پس منظر میں وقوع پذیر ہوا جب ایران برسوں سے مغرب کی جانب سے مسلسل دہرائے جانے والے “دھوکے”، “معاہدہ شکنی”، اور “جوہری دباؤ” (nuclear coercion) کا سامنا کرتا چلا آ رہا تھا۔ امریکی پالیسیوں نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے دیگر نان-نیوکلیئر ممالک کو بھی یہ سبق دیا ہے کہ خودمختاری (sovereignty) اور بقا (survival) کا تحفظ نہ قانون کی حکمرانی میں اور نہ بین الاقوامی قوانین میں ہے، یہ صرف اور صرف عسکری طاقت، بالخصوص جوہری دفاعی صلاحیت (nuclear deterrent capability) سے ممکن ہے۔ دیگر صورت میں امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ بردار بن کر رہو۔ یہ بہت ہی خطرناک نتیجہ یا سبق ہے۔

اس نکتے کو سب سے پہلے جس تجزیہ کار نے واضح انداز میں اٹھایا، وہ معروف فرانسیسی دانشور آخ نو بِختاں (Arnaud Bertrand) ہیں جو جیو اکنامکس اور چین-مغرب تعلقات کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی ایران پالیسی درحقیقت شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن (Kim Jong Un) کے مؤقف کو درست ثابت کرتی ہے۔ ان کے مطابق: “یہ دیکھنا خاصا مضحکہ خیز ہے کہ کچھ خارجہ پالیسی کے ’ماہرین‘ ٹرمپ کے ایران سے متعلق مؤقف کی تعریف کر رہے ہیں، جبکہ اس نے درحقیقت یہ ثابت کیا ہے کہ کم جونگ اُن معاملات کی ہر بات میں درست تھا۔”

ایران اور اسرائیل کی براہ راست جنگ سے پہلے، جب 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے حماس کے مزاحمتی وار کو بہانہ بنا کر غزہ پر اپنی تمام تر عسکری آگ و بارود انبار انڈیل دیا، تو مغرب کے ضمیر سے انسانیت کا آخری نغمہ بھی روٹھ گیا۔ ہر زبان پر ایک ہی وظیفہ جاری ہوا—“اسرائیل کو اپنے دفاع کا مطلق حق حاصل ہے”—ایسا مطلق حق کہ گویا مظلوم کی چیخیں، معصوم بچوں کی لاشیں، ماؤں کی آہیں، ہسپتالوں کی تباہی، اور اسکولوں کا ملبہ بھی اس حق کے پاؤں کی دھول سے کمتر ہو گیا۔

دفاع کے اس تصور نے اتنی معصوم جانوں کا خون پیا کہ خود انسانی ضمیر کی سانس اکھڑ گئی۔ عورتوں کے حقوق کا دم بھرنے والے مغربی دانشور، اور خود مغربی حکومتیں، خاص کر یورپین یونین، جو افغانستان سے ایران تک پردے، حجاب اور شادی کی عمروں پر لیکچر جھاڑتے نہیں تھکتے، اور مسلمانوں کو پسماندہ قرار دیتے ہیں، وہ غزہ کی بیٹیوں کی عزت، ماں بننے کی جبلّی ضرورت، اور زندگی کی بنیادی پرائیویسی تک کو فراموش کر بیٹھے۔ یورپ کے کتنے ملکوں نے غزہ کی محصور عورتوں کے پیریڈز کے بارے میں سوچا!

جب اسرائیل کے فائیٹر جیٹس امریکی، برطانوی، جرمن اور فرانسیسی اسلحے سے لیس ہو کر غزہ کے نوزائیدہ بچوں کے وارڈز پر موت کی بارش برسا رہے تھے، جب انکیوبیٹرز میں نومولودوں کی زندگی نازک دھاگے سے لٹکی ہوئی تھی، جب مائیں سڑکوں پر دَرْدِ زِہ میں تڑپ رہی تھیں اور کوئی دائی، مِڈوائف، گائیناکولوجسٹ یا کوئی دوا میسر نہ تھی، جب زخمیوں کی ہڈیاں بموں اور شارپنل سے چکناچور ہو چکی تھیں اور ان کی ایمپیوٹیشنز اینیستھیسیا کے بغیر کی جا رہی تھی، جب بھوک سے نڈھال نازک بچے اپنی ماؤں کی سوکھی چھاتیوں پر منہ رکھ کر سسک سسک کر سوجاتے یا خاموشی سے موت کی آغوش میں اتر جاتے، جب روٹی کی قطاروں میں کھڑے نوجوان سینوں پر گولیاں کھا کر گر پڑتے—تب بھی مغرب، مغرب ہی رہا۔

مغرب کے قانون، اس کی اخلاقیات، اس کے انسانی حقوق سب اسرائیل کے حقِ دفاع کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہو چکے تھے۔ انسانیت کی لاش پر اسرائیل کی نام نہاد قانونی جیت کا پرچم لہرا رہا تھا، اور دنیا کی سب سے “مہذب” اقوام محوِ تماشائے لب بام بیٹھی تھیں، جیسے غزہ کوئی براعظم نہ ہو، محض ایک تجربہ گاہ ہو—جہاں جدید تہذیب اپنے سفاک اور مہلک ترین ہتھیار آزما رہی ہو۔

واپس آخ نو بِختاں کی طرف آتے ہیں جو اس دنیا کے نئے نارمل کی بات کر کے مغرب اور خاص کر امریکہ پر طنز کرتا ہے۔ اس فرانسیسی تجزیہ کار کے مطابق ایسے تمام ممالک جو اپنی ریاستی بقا کے بارے میں سنجیدہ ہیں، حالیہ برسوں کے واقعات سے چار بنیادی اسباق (core strategic takeaways) اخذ کر چکے ہیں۔ پہلا یہ کہ جوہری ہتھیار (nuclear weapons) ریاستی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں، اور ان کی تیاری کسی بھی بین الاقوامی نگرانی (international oversight) سے آزاد ہو کر ہونی چاہیے (ایران این پی ٹی کا رکن ہے اور اس نے اس کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جبکہ اسرائیل این پی ٹی رکن ہی نہیں ہے)۔

دوسرا یہ کہ مغربی دنیا کے ساتھ سفارت کاری نہ صرف بے نتیجہ ہے بلکہ اکثر نقصان دہ (strategically counterproductive) ثابت ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ مغربی ٹیکنالوجی، بالخصوص جاسوسی و دفاعی نظام (surveillance and defense systems)، اب ایک سٹرٹیجک خطرہ ہیں۔ اور چوتھا یہ کہ پیشگی حملے (preemptive strikes) اور سویلین اہداف کو نشانہ بنانے والی کارروائیاں مغرب کی نظر میں اب مکمل طور پر قابل قبول (normalized) ہو چکی ہیں ( مثال کے طور پر غزہ میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر امریکہ خاموش ہے)۔

یہ تجزیہ درحقیقت اُس عالمی بےاعتمادی کو ظاہر کرتا ہے جو امریکی قیادت والے مغرب کی مسلسل پالیسی تضادات، بدمعاشی اور جنگی طرزِ عمل نے جنم دیا ہے۔ جب امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA – Joint Comprehensive Plan of Action) کو ترک کیا، اور پھر “زیادہ سے زیادہ دباؤ” (maximum pressure) کی پالیسی نافذ کی، تو یہ دراصل اُس سفارتی تصور کو تباہ کرنا تھا جو ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ (non-proliferation) کے لیے بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

جب ٹرمپ کا امریکہ ایران کے ساتھ معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوا تھا تو یورپ ایک کھسی (impotent) بلاک کی صورت اختیار کر گیا جیسے کہ نہ وہ مرد ہے اور نہ عورت اور وہ معاہدے کا گارنٹی بھی نہیں ہے۔ اور اس کے بعد جب اسرائیل نے ایران کے خلاف مسلسل خفیہ حملوں (covert attacks) اور سائبر مداخلت (cyber intrusions) کا سلسلہ جاری رکھا، اور اب براہ راست حملہ کیا، تو جی-7 پھر اسرائیل کے دفاع کے حق کا راگ الاپتا ہے۔ تو ایسے میں ایران کے پاس مزاحمتی میزائلوں کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اور اس پر بھی اسرائیل کی سرزنش کے بجائے نیٹو کا سربراہ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر بی-2 بمبارز کی شدید بمباری کو قانونی قرار دیتا ہے۔

اسی پس منظر میں ایران کا قطر میں امریکی فوجی اثاثے پر حملہ سٹریٹیجک پیغام رسانی (strategic signaling) کا مظہر ہے۔ ایرانی حکام کا مقصد صرف عسکری نقصان پہنچانا نہیں بلکہ امریکہ کو یہ باور کرانا تھا کہ اگر وہ اپنے حلیف اسرائیل کو مکمل کھلی چھوٹ دے گا تو ایران براہِ راست امریکی مفادات کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ سینٹ کام جیسے مرکز پر حملہ درحقیقت ایک حد بندی (red line enforcement) کا عمل ہے، جو جنگ کو روکے رکھنے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے تاکہ صرف کمزور فریق کو ہی مسلسل دھمکی نہ ملتی رہے۔

پیشگی اطلاع

ہمارے ہاں کچھ لوگ پیشگی اطلاع کے بارے میں سازشی تھیوریز پیش کر رہے ہیں جیسے کہ سب کچھ ڈرامہ ہو رہا ہے۔ پیشگی اطلاع دینا ضروری نہیں ہوتا تاہم اگر محاربین جنگ کو محدود رکھنا چاہتے ہیں تو یہ تاریخ میں یہ معمول رہا ہے۔ جاپان نے جب امریکہ کے پرل ہاربر پر حملہ کیا تھا تو حملے سے بالکل پہلے امریکی حکومت کو اطلاع دی تھی۔ ابھی حال ہی میں انڈیا نے جب 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب پاکستان پر حملہ کیا، تو اُس نے پیشگی طور پر پاکستان کو اطلاع دے دی تھی۔

یہ اطلاع کوئی خیر سگالی نہیں بلکہ عسکری حکمت عملی (military signaling) کا حصہ تھی۔ جب دو دشمن طاقتیں براہِ راست بڑی جنگ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ اکثر اپنے عزائم پہلے ہی ظاہر کر دیتی ہیں تاکہ مخالف کو خوف میں مبتلا رکھا جا سکے۔ پیشگی اطلاع دینا جنگی نفسیات (psychological warfare) کا ایک جزو ہے، جس کے ذریعے مخالف کی نقل و حرکت محدود کی جاتی ہے اور اسے پیغام دیا جاتا ہے کہ “ہم میدان میں تم سے ایک قدم آگے ہیں”۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی عسکری حکمت عملی کو ڈرامہ یا ساز باز سمجھنے کے بجائے اسے طاقت کی زبان میں پڑھا جائے۔

ایران بھی اسی منطق کے تحت کام کر رہا ہے۔ وہ پچھلی چار دہائیوں سے اپنے جوہری حقوق کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کی جدوجہد میں ہے۔ تاہم مغرب، بالخصوص امریکہ اور اسرائیل، اس حق کو تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں، حالانکہ IAEA کی رپورٹس میں ایسے کوئی قطعی شواہد موجود نہیں۔ امریکہ نے ایران سے سفارتی معاہدہ توڑا، اسرائیل نے ایران کے سائنسدان قتل کیے، اور مغرب نے یکطرفہ پابندیاں لگائیں — تو اس کے بعد اگر ایران جارحانہ جوابی حکمت عملی اختیار کرتا ہے تو یہ نہ صرف منطقی ہے بلکہ اس کی سٹریٹیجک خودمختاری کا قدرتی نتیجہ ہے۔

اس پورے پس منظر میں ایران کی حالیہ کارروائی نہ صرف اخلاقی اور سیاسی سطح پر ایک قابلِ فہم ردعمل ہے بلکہ اس نے بین الاقوامی نظام میں طاقت کے توازن (balance of power) کے تصور کو ایک نئی سمت دے دی ہے۔ بظاہر یہ پالیسی پسپائی یا تدریجی پیچھے ہٹنے کا تاثر دے سکتی ہے، لیکن درحقیقت اس کے پسِ پردہ ایک گہری اور دور رس حکمت عملی کارفرما ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کامیاب ریاستیں وہی ہوتی ہیں جو وقتی حالات سے مرعوب ہونے یا تماش بینی کے بجائے طویل مدتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔

آج کی دنیا میں اصول اور انصاف صرف اسی وقت باقی رہ سکتے ہیں جب ان کے دفاع کے لیے عملی طاقت موجود ہو۔ جب طاقت یکطرفہ ہو جائے، تو صرف الفاظ اور قراردادیں امن کا توازن قائم نہیں رکھ سکتیں۔ آج کے دور میں تو اسرائیل کے مظالم کے خلاف اور غزہ کے بھوکے بچوں کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی تمام قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کیا۔

ان حالات میں عقل اور حقیقت پسندی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ طاقتور کے مقابلے میں مؤثر ردعمل نہ صرف سیاسی اعتبار سے ناگزیر ہو جاتا ہے بلکہ سفارتی توازن اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایران کے سینٹ کام پر حملے کو ایک انتقامی حملہ سمجھنا اس کی سٹریٹیجک اہمیت کو گھٹا دینا ہوگا۔ اور اسے کمزور سا جواب سمجھنا بھی سٹریٹجک پیریٹی کی حکمت سے لاعلم ہونا ہے جس کا بہترین ثبوت یمن کی مزاحمت میں دنیا بھر نے دیکھا ہے۔

ایران نے درحقیقت ایک نفسیاتی، سیاسی، اور عسکری پیغام دی ہے — کہ اسرائیل کے جرائم پر خاموشی برتنا امریکہ کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اور اگر اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود رعونیت دکھائی، جیسا کہ اُس کا تاریخی مزاج رہا ہے، تو ایران کو اس کے لیے سخت سزا تیار رکھنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے