ٹرتھ سوشل پر سیزفائر کا اعلان: امن کی چادر تلے سلگتے محاذ

بالآخر وہ لمحہ آ گیا جس کی امید  تو تھی مگر جس  ڈرامائی انداز میں یہ سامنے آیا اس کی قطحی امید نہ تھی۔   مگر دوسری جانب ٹرمپ جیسا جوکر اگر ہو تو اس فیصلے کو عجیب بھی نہیں کہا جا سکتا۔

‎ خیر  ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ خوفناک جنگ کے بعد، امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایک حیران کن اعلان کیا: ”ایران اور اسرائیل مکمل اور حتمی سیزفائر پر متفق ہو چکے ہیں۔“ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے دنیا بھر کی توجہ سمیٹی، اور جنگ کے شعلوں میں گھری مشرقِ وسطیٰ کو بظاہر وقتی سکون ملا۔

‎عالمی میڈیا کے مطابق، قطر نے اس عمل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قطری وزیرِاعظم نے ایرانی قیادت سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا، جب کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے براہ راست فون پر بات کی۔ ان بات چیتوں کے بعد، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ جنگ بندی آئندہ چھ گھنٹوں میں نافذ العمل ہو جائے گی۔

‎ ایران نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ "اگر مزید حملے نہ ہوئے تو ہم بھی مزید کارروائی نہیں کریں گے۔”
‎یہ جنگ معمولی جھڑپ نہیں تھی۔ یہ ایک مکمل ریاستی تصادم تھا جس نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے تک پہنچا دیا۔ اس کا آغاز اسرائیل کے اس اعلان سے ہوا کہ اس نے ایران کی سرزمین پر موجود جوہری تنصیبات، خاص طور پر نطنز اور اصفہان جیسے حساس مقامات پر براہِ راست میزائل حملے کیے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیل نے ایران کے اندر گھس کر کھلم کھلا حملہ کیا۔ اس جارحیت کے جواب میں ایران نے بھی بھرپور ردعمل دیا۔ اس نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل، ڈرونز، اور کروز میزائل داغے، جنہوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔

‎دنوں کے اندر مشرقِ وسطیٰ کی فضائیں جنگی طیاروں، میزائلوں، اور سائرن کی آوازوں سے گونجنے لگیں۔ درجنوں افراد جاں بحق، سینکڑوں زخمی، اور لاکھوں لوگ پناہ گاہوں میں منتقل کیے گئے۔ عالمی منڈیوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی، تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، اور اسٹاک مارکیٹوں میں غیر یقینی چھا گئی۔
‎شروع میں امریکہ نے روایتی انداز اپنایا۔ وہ اسرائیل کے "حقِ دفاع” کا حامی رہا اور ساتھ ہی جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششوں کا دعویٰ کرتا رہا۔ لیکن جیسے ہی ایران کے میزائل حملوں سے اسرائیلی نظام دباؤ میں آیا، اور اسرائیل کو ممکنہ شکست یا شدید نقصان کا خطرہ محسوس ہوا، تو امریکہ نے اپنی خفیہ پالیسی ظاہر کر دی۔ امریکی فضائیہ نے جدید ترین بمبار طیاروں،  B-2 Spirit  کی مدد سے ایران کی زیرِ زمین جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔

‎ان حملوں میں "بنکر بسٹر” بم استعمال کیے گئے، جو زیر زمین گہرائی میں جا کر دھماکہ کرتے ہیں۔ امریکی دعویٰ تھا کہ ان حملوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو سالوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جبکہ ایران نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نقصانات جزوی ہیں اور تنصیبات کی حفاظت کر لی گئی ہے۔

‎امریکہ کا یہ دہرا کردار—ایک طرف ثالثی، دوسری طرف براہِ راست جارحیت—دنیا بھر میں تنقید کا باعث بنا۔ خاص طور پر عرب دنیا اور یورپی میڈیا میں یہ سوال زور پکڑ گیا کہ کیا امریکہ امن کا داعی ہے یا مشرقِ وسطیٰ میں آگ بھڑکانے والا ایک اور فریق؟

‎اس تمام کشیدگی کے باوجود قطر نے ایک بار پھر اپنی سفارتی مہارت ثابت کی۔ قطری وزیرِ اعظم نے تہران سے رابطہ کیا، جبکہ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے براہِ راست بات کی۔

‎ان کوششوں کے نتیجے میں ایک غیر روایتی منظر سامنے آیا” سیزفائر کا اعلان "کسی اقوام متحدہ، کسی دفتر خارجہ یا کسی پریس کانفرنس کے ذریعے نہیں، بلکہ ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے ہوا۔

‎دنیا نے ایک طاقتور جنگ بندی کا اعلان ایک موبائل فون کی اسکرین پر دیکھا۔

‎ٹرمپ نے لکھا:
‎”ایران اور اسرائیل نے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے، جو آئندہ 6 گھنٹوں میں نافذ ہو جائے گی۔”

‎یہ تحریر مختصر تھی، مگر اس کے اثرات گہرے تھے۔
‎یہ وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے تجزیہ کار، سفارتکار، اور دفاعی ماہرین خود سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا یہ سیزفائر پائیدار ہے یا محض ایک وقفہ ہے؟ ایران نے اپنی جوابی صلاحیت کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف پراکسیز کے ذریعے نہیں، بلکہ براہِ راست بھی اسرائیل کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اسرائیل نے بھی اپنی جارحانہ پالیسی کو واضح کرتے ہوئے ایران کی سرزمین پر حملہ کیا، اور امریکہ نے اپنی پرانی حکمت عملی کے برخلاف براہِ راست میدان میں اتر کر "ریڈ لائن” عبور کی۔

‎تینوں فریق اپنے اپنے انداز میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تینوں اب ایک نئی ممکنہ جنگ کے سائے میں زندہ ہیں۔ سیزفائر کے باوجود اعتماد کی کوئی بنیاد نہیں بنی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اندرونی سیاسی بحران کا سامنا ہے، اور وہ ایسی جنگوں کو وقتی ریلیف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایران امریکی حملے کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ اور امریکہ کو اپنی ساکھ، اپنی افواج اور اپنے عوام کے سامنے سر اونچا رکھنا ہے۔

‎ ایران نے اس جنگ میں جس جرات، غیرت اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، وہ تمام مسلم دنیا کے لیے باعثِ فخر ہے۔ نہ صرف اس نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا، بلکہ آخر میں دانشمندی اور سیاسی بلوغت کا ثبوت بھی دیا۔

‎بعض حلقوں کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان کسی گٹھ جوڑ کا تاثر دینا زیادتی ہو۔

‎فی الحال، جنگ رک گئی ہے۔ طیارے واپس ہینگروں میں ہیں، میزائل اپنے لانچرز میں سو رہے ہیں، اور سیاستدان سیزفائر کو اپنی "فتح” قرار دے رہے ہیں۔ مگر تہران، تل ابیب اور واشنگٹن میں سب جانتے ہیں کہ یہ خاموشی محض وقتی ہے۔ یہ امن، دراصل ایک وقفہ ہے—جیسے جلتے الاؤ پر ایک گیلا کپڑا رکھ دیا جائے، جو دھواں تو کم کرتا ہے مگر شعلے بجھاتا نہیں۔

‎اور شاید اگلی بار نہ کوئی ثالثی کر پائے، نہ کوئی قطر بیچ بچاؤ کرے، اور نہ ہی کوئی "ٹرتھ سوشل” پر امن کی خبر نشر کرنے کے قابل بچے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے