خالق کائنات کی سب سے خوبصورت اور شاندار تخلیق خود انسان ہے۔ انسان اپنے ذہن، جذبوں، وجود، کردار، علم اور شخصیت کے اعتبار سے بے انتہا عظمت، شرافت اور وقار کے حامل قرار پایا ہے۔ ہمیں جس صورت، سیرت، روحانیت اور امکانی کردار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہیں اس سے زیادہ بہتر اور برتر صورت کے تصور سے انسانی تخیل خالی ہے لیکن یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے تمام تر عظمتیں اور رفعتیں انسان کے ساتھ امکانی طور پر لگائے ہیں مطلق طور پر نہیں ان کے واقعاتی بننے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی فرد ان امکانی خاکوں میں اپنے آزاد ارادے، صلاحیت اور خواہش سے کام لے کر زندگی میں کچھ بہتر کر دکھانے سے حقیقت کا رنگ بھر دیں۔
انسان ہونے کے اعتبار سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں دونوں کی شخصیت، کردار اور دائرہ کار بے شک الگ الگ ہے اور اسے لازماً الگ الگ رکھنا چاہیے بھی کہ یہ فطرت کا ایک بنیادی تقاضا ہے، لیکن عزت و احترام کے تناظر میں دونوں ہستیاں سو فیصد برابر ہیں اور ان میں کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا ہے۔ آپ زندگی کے امتحان میں رہ کر کوئی بھی کام یا کارنامہ دکھا دے خواہ مرد ہے یا عورت، خالق و مخلوق دونوں اس کے کما حقہ قدردان ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مرد و عورت نے مل کر زندگی اور تہذیب کا لمبا سفر ایک دوسرے کی مخلصانہ رفاقت میں طے کیا ہیں۔ آج انسان ترقی، خوشحالی، تہذیب و تمدن اور شرف و تکریم کے جس بلند مقام پر فائز ہے یہاں تک پہنچنے میں دونوں برابر کے حصہ دار ہیں اس معاملے میں کوئی کم تر یا بالاتر نہیں۔
میرے دل و دماغ میں عورت کے وقار کا جو تصوراتی خاکہ قدرت نے نصب کیا ہے ان پہ پوری اترنے والی بے شک بہت ساری خواتین ہیں لیکن ان سب میں ایک خاص مقام ملکہ معظمہ ایلزبتھ دوئم کا بھی ہے۔ میرے لیے ان کی باوقار شخصیت، دل آویز مسکراہٹ، سدا بہار تر و تازگی، دائمی طور پر اجلا اور نکھرا لباس، مسحور کن چل چلاؤ، دانشمندانہ خیالات، حوصلہ مند انداز اور خاندانی تحفظ کو لازمی اہمیت دینا بے انتہا کشش کے باعث رہے ہیں۔ میں نے جب بھی ان کو دیکھا ہے تو ایک عجیب سی اپنائیت اور مانوسیت کا گہرا احساس ہوا ہے۔ چند برس پہلے جب ملکہ معظمہ کے چھوٹے پوتے شہزادہ ہیری کی شادی کی تقریب، جب میں براہِ راست دیکھ رہا تھا اور معروف امریکی بشپ مائیکل کیوری Bishop Michael Curry خطبہ نکاح دے رہے تھے، جس کے دوران موصوف نے محبت کو اچھائی، سچائی اور توانائی کا سرچشمہ قرار دیا تھا، تو بے اختیار میرے آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے، یہ کیا تھا؟ کیوں تھا؟ اور بیٹھے بیٹھے یہ سب کیسے ہوا؟ لفظوں میں اس کا جواب میرے پاس بالکل نہیں۔
وہ دنیا کے ان خواتین میں سے ایک تھی جنہوں نے بہت زیادہ عمر پائی اور طویل ترین حکمرانی بھی کی۔ بے شمار خوشیاں دیکھی اور لاتعداد بحرانوں کا سامنا بھی حوصلے سے کیا۔ انہوں نے عالمی اور مقامی سطح پر بدلتے احوال کا ضروری لحاظ بھی کیا اور بنیادی اقدار کا بہر صورت دفاع بھی۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں بطورِ ملکہ کام شروع کیا جب تاریخ ہمہ گیر تبدیلی کے عمل سے گزر رہی تھی، دنیا بادشاہت سے نکل کر جمہوریت میں داخل ہو چکی تھی جبکہ جنگ عظیم دوم بھی ابھی گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جس نے خاص کر یورپ اور بالعموم پوری دنیا کو ہر اعتبار سے بری طرح متاثر کیا تھا علاؤہ ازیں معاشروں میں طرح طرح کی مطلوب اور نامطلوب تغیرات واقع ہو رہی تھی لیکن بیک وقت یہ ان کا مضبوط کردار اور لچکدار سوچ تھی کہ انہوں نے کمال دانشمندی سے نہ صرف جمہوریت کو خوش دلی سے راستہ دیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں بادشاہت سے وابستگی کا احساس بھی برقرار رکھا اور ساتھ ہی ساتھ جہاں بھی جاتی وہاں جنگ عظیم سے خوف اور مایوسی میں مبتلا لوگوں کو پھر سے آزادی، وقار اور حوصلے سے رہنے کی تلقین کرتی۔ ہمیشہ ان سوالات کا حوصلہ مندی سے جواب دیا جو بادشاہت کی بقاء اور ضرورت سے متعلق گاہے بگاہے ان کے سامنے اٹھتے رہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بادشاہت کے بطورِ ایک اہم تاریخی اور قومی ادارہ اور عوام الناس میں یکجہتی کے لیے بطورِ ایک طاقتور محرک کی تائید کی۔
جدید تہذیب سے مغرب و مشرق میں مختلف قسم کی تبدیلیاں انتہائی سرعت سے پھیل گئی جنہوں نے سماجی، اخلاقی اور خاندانی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا اس نقصان کی شدت اور وسعت نے ہر طرف اپنے اثرات دکھائیں اور بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے اثرات سے کوئی بھی نہیں بچا یہاں تک کہ برطانوی شاہی خاندان بھی۔ عالمگیر شہرت کے حامل اور ملکہ معظمہ کی بہو شہزادی ڈیانا بھی اس حوالے سے ہمیشہ خبروں میں رہتی تھی۔ ملکہ معظمہ کو شہزادی ڈیانا کے خاندان سے باہر کی "دلچسپیاں” اور "خبریں” نہ تو کسی صورت پسند تھی اور نہ ہی قابلِ قبول۔ وہ مغربی معاشرے میں سماجی اقدار اور خاندانی نظام کی محافظ ایک بے مثال خاتون تھی۔ 75 سال پر محیط ازدواجی اور خاندانی زندگی پوری شان و شوکت سے بسر کر کے ان لوگوں کے لیے مثال قائم کی جو رشتوں اور خاندان کو چھوڑ کر، تاریک راستوں کے مسافر بن کر صحت، عزت، شرافت اور دولت کا اپنا اثاثہ تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
1926ء کو پیدا ہونے والی، 1936ء کو ولی عہد بننے والی، 1944ء کو آٹو مکینک کے کام اور ڈرائیونگ سیکھنے والی، 1947ء کو شادی کرنے والی اور 1952ء کو ملکہ معظمہ کی حیثیت سے ابھرنے والی، 70 سال سے زائد عرصہ حکمرانی کرنے والی اور 96 برس تک عمر پانے والی ملکہ ایلزبتھ دوئم 8 ستمبر 2022ء کو ایک ایسے وقت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی جو دنیا طرح طرح کے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے اور انسانی برادری شرق و غرب میں نوع بہ نوع صدموں سے بری طرح دو چار ہے۔ ایسے بے رحم احوال میں بلاشبہ ایسے حکمرانوں کی ضرورت کہیں زیادہ تھی جو اپنی دل آویز مسکراہٹ، گہری بصیرت، عمیق انسانی ہمدردی، مخلصانہ محبت اور ہمہ جہت مفاہمت سے انسانوں کو حوصلہ اور اطمینان دینے کے لیے گراں قدر کام جاری رکھیں۔
ملکہ ایلزبتھ دوئم مملکت برطانیہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ سے وابستہ 14 ممالک کی آئینی سربراہ تھیں۔ اِس کے علاوہ وہ دولتِ مشترکہ کے تمام 54 ملکوں کی اعزازی ملکہ بھی رہی۔ 1947ء میں ان کی شادی شہزادہ فلپ کے ساتھ ہوئی، جن سے ان کے چار بچے ہیں۔ جب ان کے والد بادشاہ جارج ششم کا 1952ء میں انتقال ہوا، تب ایلزبتھ دولتِ مشترکہ کی صدر اور مملکت برطانیہ، کینیڈا، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن گئیں۔ ان کی تاج پوشی کی تقریب 1953ء میں منعقد ہوئی، یہ اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی جو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہوئی۔ 9 ستمبر 2015ء کو انہوں نے ملکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے عرصے تک حکومت کرنے کا رِیکارڈ توڑ دیا اور برطانیہ پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا۔
ملکہ ایلزبتھ دوئم ایک ایسے وقت میں ملکہ بنی جب اس کے ملکہ بننے کی بظاہر کسی کو امید نہیں تھی۔ ہوا یوں کہ دسمبر 1936ء میں ان کے چچا ایڈورڈ ہشتم نے دو مرتبہ طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس سیمپسن سے شادی کے لیے تخت برطانیہ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد ایلزبتھ کے والد جارج ششم بادشاہ بن گئے اور ایلزبتھ دوم صرف دس سال کی چھوٹی عمر میں ولی عہد بن گئی۔ اس کے تین سال بعد برطانیہ اور جرمنی کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کے دوران زیادہ وقت ایلزبتھ اور ان کی چھوٹی بہن پرنس مارگریٹ نے ونڈسر پیلس میں گزارا جب ان کے والدین نے انہیں حفاظت کے غرض سے کینیڈا بھیجنے کی تجویز سے انکار کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ایلزبتھ نے آٹو مکینک اور ڈرائیونگ کی تربیت حاصل کی۔
ان کی وفات پر عالمی رہنماؤں نے ان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا آئیے چند ایک ملا حظہ کرتے ہیں!
ملکہ ایلزبتھ دوئم کی وفات پر برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے کہا کہ "ملکہ نے ہمیں وہ استحکام اور طاقت فراہم کی جس کی ہمیں ضرورت تھی”۔ ان کا کہنا تھا کہ "زندگی میں انہوں نے 96 سے زائد ملکوں کے دورے کیے اور کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بہتر انداز میں بدلیں”۔ نو منتخب وزیراعظم نے مزید کہا کہ "جیسا کہ ایک ہزار سے زائد سالوں سے ہوتا آیا ہے آج تاج ہمارے نئے بادشاہ اور ریاست کے نئے سربراہ کنگ چارلس سوم کو منتقل ہوگا۔ ہم کنگ چارلس سے ان کی والدہ کی موت پر تعزیت کرتے ہیں”۔
سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے انہیں یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کس طرح وہ گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ کے "تاریک ترین دنوں” میں امریکہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی تھیں”۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں کا کہنا تھا کہ "وہ نرم دل ملکہ اور فرانس کی دوست تھیں”۔
کینیڈا کے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ "ملکہ کینیڈین عوام کی زندگیوں میں ہمیشہ رہیں گی اور وہ دنیا میں ان کی پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں”۔
برطانوی شاہی خاندان کے امور کے نامہ نگار جونی ڈائمنڈ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ
"ان کے کردار میں ایسی کئی چیزیں تھیں جو کہ برطانوی شہری اپنے اندر دیکھتے ہیں جیسے عاجزی، شکایت نہ کرنا، کفایت شعاری، دانائی، احساس، کم میں خوش ہونا، طنز سے ہٹ کر خوش مزاجی کے ساتھ بڑی خوبصورت ہنسی، غصہ نہ آنا اور بہت زیادہ سلیقہ مندی”۔
ملکہ معظمہ نے ایک بار کہا تھا کہ "میں بلند معیارات کا آخری ادارہ ہوں”۔ وہ اپنے بہترین اخلاق یا آداب پر فخر نہیں کر رہی تھیں بلکہ ان سے وہ حقیقت میں اپنی زندگی اور کردار کی وضاحت کر رہی تھیں۔ ایک اور موقع پر ملکہ ایلزبتھ دوئم نے کہا تھا کہ "میں جو بھی ہوں، جیسی بھی ہوں اور جس طرح بن گئی ہوں یہ سب خدا کی طرف سے ہے”۔
ملکہ ایلزبتھ دوئم کی وفات پر برطانوی شاہی خاندان نے گہرا سوگ منایا۔ طویل عرصے تک ولی عہد رہنے والے شہزادہ چارلس کو بطورِ بادشاہ نامزد کر دیا گیا۔ اس موقع پر تمام سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات منسوخ کر دی گئی تھیں، برطانوی پرچم شاہی رہائش گاہوں، حکومتی عمارات، برطانوی فوج کے ہیڈکوارٹرز اور سمندر پار برطانوی سفارت خانوں پر بھی سرنگوں رہا تھا۔