مذاکرات کاخیر مقدم ہو نا چاہیے۔اسی کا نام سیاست ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان لو گوں کے شر سے محفوظ رکھے جو کوفے میں بیٹھ کر عالمِ اسلام کو کربلا بنانے پہ تلے رہتے ہیں۔
قلم گھس گیا یہ لکھتے لکھتے کہ یہ اقتدار کی سیاست ہے،حق وباطل کاکوئی معرکہ نہیں۔ترجیح کا ہمیں حق حاصل ہے مگر یہ مان کر کہ اس کارگہ حیات میں کوئی غزنوی نہیں۔ اقتدار کا سومنات اسی طرح کھڑا رہے گا اور اقتدار کے پچاری اس کا طواف جاری رکھیں گے۔اس سے بڑھ کر کوئی نادا نی نہیں کہ ان میں کوئی ’سیاسی مُوَ حّد‘ تلاش کیا جا ئے۔سیاسی عمل اہلِ سیاست کے مابین بات چیت ہی سے آگے بڑ ھتا ہے۔جو اس بات کو نہیں سمجھتا ،اس کی جگہ میدانِ سیاست نہیں،پہلوانوں کا اکھاڑا ہے۔
عمران خان صاحب کا موقف میرے لیے پہلے دن ہی ناقابلِ فہم رہا ہے۔جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ انہیں سیاست و اقتدار سے دور رہنا چاہیے،وہ ان سے مذاکرات کے لیے درخواست گزار ہیں اور اہلِ سیاست سے منہ لگانے کو تیار نہیں۔اس کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ اخلاقی۔کہا جا تا ہے کہ جن کے پاس اقتدار ہے،بات ان ہی سے کرنی چاہیے ۔اہلِ سیاست تو محض نمائشی کردار ہیں۔سوال یہ ہے کہ آپ ان سے کیا بات کریں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ آپ ایوانِ اقتدار سےتشریف لے جائیں؟کیا وہ آپ کے کہنے پہ رخصت ہو جا ئیں گے؟ کیا وہ اس موضوع پر آپ سے بات کریں گے؟ یہ بات ایک بچہ بھی جانتا ہےکہ در خواستوں سے کوئی نہیں جاتا۔دوسرا طریقہ احتجاج کی سیاست ہے۔اس کا ایک منہج تنہا پرواز ہے۔دوسرا دیگر اہلِ سیاست اور سماج میں موجود جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے لیے جد وجہدکرنا ہے۔پہلا طریقہ آزما کے دیکھ لیا۔اب صرف دوسرا طریقہ باقی ہے۔اگر آپ کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر جو ہو رہا ہے،اس کو بر داشت کریں ۔اس موقف کی عقلی اوقات بس اتنی ہے۔
رہی اخلاق کی بات تو بہتر یہی ہے کہ اس کو رہنے دیا جائے ۔جس طبقے کو جماعت میں شامل کیا جا سکتا ہے،اسی طبقے کے لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے؟جو لوگ اپنی صفوں میں گوارا ہیں،وہ دوسری صف میں کیوں پسند نہیں؟ان سوالات کے جواب کسی کے پاس نہیں۔اسی لیے میں نے عرض کیا کہ ا خلاقیات کی بات نہ ہی چھیڑی جائے تو اچھی ہے۔جب اپنا موقف پیش کرتے اور دوسروں کورد کرتے وقت آپ سچ جھوٹ کی تمیز کے قائل نہ ہوں تو پھر اخلاقی دلیل کا ذکر عبث ہے۔مان لیجیے کہ یہ ایک سیاسی عمل ہیں ،آپ جس کا حصہ ہیں اور دوسرے بھی آپ کی طرح اس کا حصہ ہیں۔
سیاست ، راستہ تلاش کرنے کا نام ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے لیے سیاست دانوں نے جدو جہد کی توایک دوسرے کے ساتھ مل کر کی۔ایک مشترکہ مقصد کے لیے اتحاد وجود میں آتے رہے ہیں اور مولانا مودودی جیسے پاکیزہ لوگ بھی اس کاشامل رہے ہیں۔ اس میں کوئی اخلاقی برائی ہے نہ سیاسی قباحت۔آدمی اگر نرگسیت کا مریض نہ ہو تو دوسروں کو اپنے جیسا انسان سمجھتا اور ان سے بات چیت کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتا ہے۔ سماج میں معاملات اسی طرح آگے بڑھتے ہیں۔جس موقف کی کوئی اخلاقی اساس نہ ہو اورجو خلافِ عقل بھی ہو،اس پر اصرار مناسب نہیں ہوتا۔سنجیدہ لوگ اس سے گریز کر تے ہیں۔اس لیے اگر تحریکِ انصاف کے چند راہنماؤں نے مذاکرات کی اہمیت کو سمجھا ہے اور اس راستے پر پیش قدمی کی بات کی ہے تو اس کا خیرمقدم ہو نا چاہیے۔
تحریکِ انصاف اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو پھر اسے سیاسی جماعت بن کر سوچنا ہو گا۔اس کا مفاد اس میں ہے کہ سیاست اپنے فطری راستے پر آگے بڑھے اور وہ بھی دوسروں کے ساتھ ہم قدم ہو۔ پہلا قدم جو اسے اٹھانا چاہیے وہ اہلِ سیاست کے ساتھ مذاکرات ہے۔وہ ایک سیاسی ایجنڈے پر لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے۔اگر کوئی دوسرا مذاکرات کی بات کرتا ہے تو اس کے بڑھے ہاتھ کو تھام لے۔خود کو ایک نارمل سیاسی جماعت کی طرح دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول بنائے۔اس کے بعد انہیں ایک سیاسی ایجنڈے پر متفق کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے راستے نکلیں گے اور ملک بھی اضطراب سے باہر آئے۔
بد قسمتی سے تحریکِ انصاف کی باگ سنجیدہ سیاسی ذھن کے بجائے سوشل میڈیا کے ہیجان پرور فنکاروں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔وہ لوگوں کوا کساتے اور اقتدار کی اس کشمکش کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔بد قسمتی سے خود عمران خان صاحب بھی یہی رجحان رکھتے ہیں۔اس سے چند لوگوں کو ممکن ہے فائدہ پہنچا ہو مگر خان صاحب اور تحریکِ انصاف کو بحیثیت جماعت نقصان پہنچا ہے۔اسی ہیجان نے نو مئی کے اس حادثے کو جنم دیا جس نے پی ٹی آئی کی کا یا پلٹ کر رکھ دی۔ خان صاحب نے بھی یہ جانا کہ وہ ا ردوان بن رہے ہیں۔اس ہیجان نے انہیں ایک ایسی ذھنی کیفیت میں مبتلا کر دیا کہ وہ ریاست سے جا ٹکرائے۔انجام ہمارے سامنے ہے۔
تحریکِ انصاف کو اپنے گروہی مفاد کے ساتھ ریاست کے مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ ریاستی اداروں کے ساتھ دشمنی کسی ملک میں قابلِ قبول نہیں ہو تی۔تنقید اور دشمنی میں فرق ہے۔ اداروں کے سیاسی کردار پر سب ہی تنقید کرتے ہیں مگر وہ قومی مفاد اور گروہی مفاد میں فرق کرتے ہیں۔جماعت اسلامی بھارت کے مقابلے میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی رہی۔اس کے ساتھ داخلی سیاست کے حوالے سے تنقید بھی کرتی رہی۔تحریکِ انصاف کے حلقے نے اس پر جماعت کو سینگوں پر اٹھا لیا اور انہیں منافق قرار دے دیا۔اس طرح کی اصلاحوں میں وہی لوگ کلام کرتے ہیں جو اقتدار کی اس سیاست کو حق و باطل کا معرکہ سمجھتے ہیں۔پاکستان ک سیاسی قیادت ہمیشہ دوباتوں میں فرق کرتی رہی ہے۔یہی توازن ہے جو سیاست سکھاتی ہے۔
تا دمِ تحریر تحریکِ انصاف کے ان راہنماؤں کی اس تجویزپر عمران خان صاحب کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔اگر انہوں نے اپنے ’اصولی‘ُموقف پر اصرار کیا تو یہ پیش رفت بے معنی ہو جا ئے گی اور اس سے راستہ کھلنے کا امکان ختم ہو جا ئے گی۔وزیراعظم پہلے ہی مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔حکومت کو اس پر مزید دل کھلا کر نا چاہیے تاکہ بات آگے بڑھے اور سیاسی عمل پوری طرح بحال ہو۔تحریکِ انصاف اگر خود کو اس قابل بنا لے کہ وہ اگلے انتخابات میں اپنے نام اور نشان کے ساتھ الیکش میں حصہ لے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو اور اس کا ہدف بھی یہی ہو نا چاہیے۔ مذاکرات کا راستہ اگر کھلتا ہےتواس سے فائدہ تحریکِ انصاف ہی کا ہو گا۔ عمران خان صاحب کے لیے بھی ممکن ہو جائے گا کہ وہ کوئی عملی کردار ادا کر سکیں۔
پی ٹی آئی کوعزیمت ا ور ضد میں فرق ہو گا ہے۔عزیمت ایک اخلاقی قدر ہےا ور ضد انا پرست فطرت کا ظہور ۔اہلِ عزیمت ذات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔اللہ کرے کہ خان صاحب اس بات کو سمجھیں اور کوفے والوں سے ہوشیار رہیں۔ وہ لوگ بھی ہدایت پائیں جو تحریکِ انصاف کو ریاستی ادارو ں سے لڑانا چاہتے ہیں۔ مذاکرات امید کا دوسرا نام ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر رہے ہیں۔یہی حقیقت پسندی ہے اور یہ سیاست کا پہلا سبق ہے۔