جنت کا دروازہ صرف پاکستانیوں کے لیے

ہر سال جب جولائی کی گرمی میں عام پاکستانی اپنے پنکھے کے نیچے بیٹھا بجلی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، پاکپتن میں ایک دروازہ کھلتا ہے بہشتی دروازہ!

جی ہاں، جنت کا دروازہ، جو باقی دنیا والوں کو نصیب نہیں ہوا، نہ عربوں کو، نہ ایرانیوں کو، نہ ترکوں کو۔ یہ نعمت صرف اور صرف ہم پاکستانیوں کو ملی ہے!

مسجد الحرام کے کم و بیش 210 دروازے ہیں، مسجد نبوی کے تقریبا 42 دروازے ہیں، اور مسجد اقصیٰ کے شاید کل 15 یا 16 دروازے ہیں، لیکن ان میں سے کسی دروازے کو یہ “سعادت” حاصل نہیں ہے جو ہمارے اس دروازے کو حاصل ہے کے نیچے سے گزریں اور جنت میں داخل ہو جائیں۔

روزانہ ڈیڑھ لاکھ افراد اس “روحانی واک تھرو” سے گزرتے ہیں، جیسے کوئی بائیومیٹرک مشین ہو جو جنتی اور گنہگار الگ کر رہی ہو۔

یہ جنت کا واحد دروازہ ہے جس پر پنجاب پولیس تعینات ہے۔

اس دروازے کی "روحانی ٹریفک” اتنی زیادہ ھوتی ھے کہ بعض اوقات ہلاکتیں بھی واقع ھوئی ھیں اور ایک آدھ بار ایک خودکش بمبار بھی اس دروازے سے کچھ لوگوں سمیت مستفید ہوتے ہوئے اپنا جسد خاکی چھوڑ کر سیدھا جنت کو نکل گیا۔

تیرہویں صدی سے پہلے اس خطے کے لوگ کیسے گناہ بخشواتے تھے؟ اس وقت نہ بہشتی دروازہ تھا، نہ پنجاب پولیس، نہ ڈیڑھ لاکھ زائرین۔ کیا تب کے لوگ جہنم کے پکے امیدوار تھے؟ یا اُن کے لیے کوئی اور راستہ تھا؟

آج کل تو پاکستانی عوام شناختی کارڈ کے لیے نادرا کی قطار میں لگنے سے کتراتی ہے، مگر جنت کے ایک دروازے سے گزرنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑی رہتی ہے، وہ بھی شدید گرمی میں، پولیس لوگوں کو مارتی بھی ہے، اور رش بھی لگ جاتا ہے۔

جان کی امان ہو تو ہمارا ایک مشورہ ہے۔ جس طرح شناختی کارڈ آن لائن بننا شروع ہو گیا ہے، جس طرح لائسنس آن لائن رینیو ہو رہے ہیں، جس طرح ایم ٹیگ کے پیسے آن لائن بھرے جا سکتے ہیں اسی طرح جنت سے بھی گزرنے کا کوئی آن لائن سسٹم ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ کوئی ایپ بنائے، لوگ اس ایپ کو اپنے موبائل میں انسٹال کریں، سبسکرائب کریں، اور اسی ایپ کے ذریعے جنت کے دروازے سے “ڈیجیٹلی گزرنے” کا ثواب حاصل کریں، حکومت کا فرض ھوتا ہے کہ عوام کو سہولت پہنچانا — چاہے وہ دنیا کے کام ہوں یا جنت کے! بے شک اس ایپ کا نام "مریم نواز ڈیجیٹل بہشتی دروازہ” رکھ دیں۔ ایپ پر وزیراعلی صاحبہ کی تصویر لازمی ہو۔

یہ دروازہ دنیا میں کہیں اور ہو تو اس پر فلم بنے، ناول لکھے جائیں، یا کوئی اقوامِ متحدہ کا اعزاز دیا جائے کہ “عالمی سطح پر سب سے آسان راستہ جنت کا دریافت کرنے پر پاکستانی عوام کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے!” آپ کے اعمال اچھے نہیں، جھوٹ، کرپشن، ظلم، زیادتی آپ کا مشغلہ ہے، تو فکر ناٹ پلیز ۔۔ بس بہشتی دروازے کا رخ کریں، کیونکہ یہاں "سب کچھ معاف” کی سالانہ سیل لگی ہوتی ہے صرف پاکستانیوں کے لیے!

میں سوچ رہا تھا اور اللہ مجھے اس طرح سوچنے پر معاف فرما دے۔ میرے اس پیارے ملک میں اتنی کثیر تعداد میں علمائے کرام ہیں، بڑے بڑے مدارس چلا رہے ہیں، اسلامک سینٹرز چلا رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں، بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین صلح صفائی کروا رہے ہیں، یہاں تک کہ افغانستان کے طالبان کو بھی عقل اور شعور ایزی لوڈ کرواتے رہتے ہیں ان نابغہ روزگار جید علماء کے ابا و اجداد بھی بڑے نامی گرامی علمائے کرام اور دانا تھے۔ ان کو یہ فکر تو رہتی ہے کہ امت مسلمہ کسی دوسری پارٹی کو ووٹ نہ ڈال دے۔ان کو یہ فکر کیوں نہیں ہے کہ امت مسلمہ گمراہ ہو رہی ہے، مشرک ہو رہی ہے۔ حدیث ہے کہ "جہنم کی آگ علماء سے بھڑکائی جائے گی ” کہیں خدانخواستہ وہ علماء ہمارے والے تو نہیں ہیں؟ کیا ان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ گمراہ ہوتے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ بتائیں۔ سیاسی پریس کانفرنس کرنے کے لیے دوسرے سیاسی رہنماؤں دھجیاں اڑانے کے لیے میڈیا کو اکٹھا کر لیتے ہیں چائے بھی پلاتے ہیں سموسے بھی کھلاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ میڈیا والو! لے اؤ بھئی اپنے اپنے کیمرے آج ہم توحید بیان کریں گے، آج ہم احادیث بیان کریں گے، آج ہم تفسیر بیان کریں گے، جائز ناجائز اور حرام حلال بتائیں گے، یا اج ہم بتائیں گے کہ یہ بہشتی دروازہ ایک جھوٹ ہے ایک فراڈ ہے معصوم انپڑ جاھل لوگوں کو فریب دیا جا رہا ہے۔ اس کا جنت میں داخلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ بتائیں گے وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے