کال کوٹھری میں بند ایک قومی ہیرو

پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک تکلیف دہ پہلو اس وقت اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھری میں بند ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو کبھی کرکٹ کے میدانوں میں قوم کی دھڑکن تھا، جس نے ورلڈ کپ کی جیت سے لے کر ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور پھر سیاست تک، اپنی محنت سے ایک نئی سوچ پیدا کی، سیاسیت میں اس طبقے کی جگہ پیدا کی جسے سیاسی اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج وہی عمران خان نہ صرف قید ہے بلکہ عملاً مکمل تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے، لیکن عملی حقیقت اس سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کو قید میں رکھے دو سال ہونے کو آئے ہیں، ان پر لگائے گئے مقدمات کی تعداد دو سو سے زائد ہے، اور ان میں بیشتر وہ ہیں جنہیں قانونی ماہرین بھی کمزور اور مبہم قرار دے چکے ہیں۔ اس دوران ایک مسلسل سلسلہ رہا ہے کبھی فرد جرم، کبھی التوا، کبھی نئی ایف آئی آر، اور اکثر اوقات ایسے الزامات جن پر قانون خود سوال اٹھاتا دکھائی دیتا ہے۔

حالیہ دنوں میں ان کی بہنوں نے ملاقات کے بعد جو خدشات ظاہر کیے، وہ کسی بھی ذمہ دار ریاست کے لیے لمحۂ فکریہ ہونے چاہییں۔ ان کے مطابق عمران خان کا وزن تیزی سے کم ہو رہا ہے، اور جیل انتظامیہ ان کے ذاتی معالج کو معائنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ یہاں سوال صرف ایک فرد کی صحت کا نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کا ہے جو نہ صرف مخالف آوازوں سے خائف دکھائی دیتا ہے بلکہ طبی نگہداشت جیسے بنیادی انسانی حق کو بھی سیاسی تناظر میں دیکھنے لگا ہے۔

معاملہ صرف صحت، مقدمات یا ملاقاتوں کا نہیں، یہ اس تاثر کا ہے جو پورے ملک میں پھیل رہا ہے کہ نظام انصاف کچھ افراد کے لیے نرم اور تحریک انصاف کیلئے بے حد سخت ہو چکا ہے۔ ایک طرف سابق وزیر اعظم کو کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے، تو دوسری طرف سنگین الزامات کے حامل کئی افراد مکمل آزادی کے ساتھ سیاسی میدان میں متحرک ہیں۔ یہ تضاد اگرچہ نیا نہیں، مگر اس بار یہ کہیں زیادہ واضح اور بے نقاب دکھائی دیتا ہے۔

عمران خان سے اختلاف ممکن ہے، ان کی پالیسیوں، ان کے اندازِ حکمرانی یا ان کے بیانیے پر تنقید ایک جمہوری حق ہے، لیکن اس سب کے باوجود ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون اور اصولوں کی پابند رہے۔ اگر ایک مقبول عوامی رہنما کو اس انداز میں الگ تھلگ رکھا جائے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو جائے، تو اس کا اثر محض ایک فرد تک محدود نہیں رہتا یہ پورے نظام پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت کا تسلسل کبھی مستحکم نہیں ہو سکا، وہاں ایک سیاسی رہنما کو اس طرح قید میں رکھنا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف سیاسی درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے بلکہ ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے۔ سیاسی اختلاف کا جواب سیاسی میدان میں دیا جاتا ہے، کال کوٹھری میں قید کر کے نہیں۔

عمران خان کی مقبولیت کو جبر کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی انکی مقبولیت میں کوئی کمی ممکن ہے بلکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قید میں ڈالے گئے رہنما اکثر وقت کے ساتھ زیادہ مضبوط ہو کر نکلتے ہیں، اور نظام خود کمزور پڑ جاتا ہے۔

عمران خان کی قید کا معاملہ اب صرف ایک شخص کی رہائی یا گرفتاری کا نہیں رہا۔ یہ ایک آئین، ایک طرزِ حکومت، اور ایک قومی مزاج کی آزمائش ہے۔ جس کا جواب وقت دے گا اور شاید تاریخ بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے