عوامی سہولت یا عوام کی زحمت؟

اسلام آباد، جسے پاکستان کا دل اور انتظامی دارالحکومت کہا جاتا ہے، وہاں ایک عام شہری کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے جو کسی پسماندہ علاقے کے تھانے کی یاد تازہ کر دے، تو یہ قومی سطح پر ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

موٹروے چوک، اسلام آباد کا وہ داخلی و خارجی مقام ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں لوگ گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے ہو کر راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ، حسن ابدال یا دیگر علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں نہ تو کوئی باقاعدہ ٹرانسپورٹ ٹرمینل موجود ہے، نہ شیڈز، نہ بیٹھنے کی جگہ اور نہ ہی عوامی سہولت کے لیے کوئی مستقل انتظامات۔ عوام مجبوری میں سڑک کنارے گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں، جہاں دھوپ، بارش یا سردی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ لیکن بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تعینات پولیس اہلکار، عوام کو سہولت دینے کے بجائے ہراساں کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

گزشتہ دنوں موٹروے چوک پر ایک پولیس اہلکار کی جانب سے گاڑی کے انتظار میں کھڑے مسافروں کے ساتھ بدتمیزی، غیر اخلاقی زبان اور زبردستی دھکے دے کر ہٹانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے واقعات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں، لیکن اعلیٰ حکام کی جانب سے کوئی مؤثر نوٹس نہیں لیا جا رہا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ جب ریاست شہریوں کو بنیادی سفری سہولیات دینے میں ناکام ہو، تو کم از کم یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جو ادارے عوامی خدمت کے دعوے دار ہیں، وہ شہریوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مسافر پریشان، خواتین خائف اور بزرگ بے بس ہیں، لیکن پولیس کا رویہ انتہائی غیر مہذب ہے۔

یہ کالم محض شکایت نہیں، بلکہ ایک آواز ہے جو ان لاکھوں بے آواز شہریوں کی نمائندگی کر رہی ہے جو روزانہ ایسے رویوں کا سامنا کرتے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ:

موٹروے چوک پر باقاعدہ مسافر شیڈز، بیٹھنے کی جگہ اور پبلک ٹرانسپورٹ پوائنٹ بنایا جائے۔

وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کو عوامی رابطہ اور اخلاقیات کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔

بدتمیزی اور اختیارات کے غلط استعمال میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

عوامی مقامات پر پولیس فورس کو معاونت کی علامت بنایا جائے، نہ کہ خوف کی علامت۔

یہ معاشرہ تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ عزت اور انصاف کا رویہ اپنائے۔ ورنہ دارالحکومت کا یہ موٹروے چوک، ایک بدنام داخلی راستہ بن کر رہ جائے گا جہاں عزت نفس کی پامالی معمول بن چکی ہے۔

خلاصہ:
اسلام آباد جیسے شہر میں اگر عوام سہولت کے بجائے زحمت کا سامنا کریں تو یہ سوال ریاست، پولیس اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر اٹھتا ہے۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ ایسے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے