حضرت امام حسین: شخصیت، مقام اور قربانی نیز عصر حاضر میں واقعہ کربلا سے امت کو ملنے والے اسباق

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت تاریخ انسانی کی ایک تابندہ مثال ہے، جو ایمان، استقامت اور انسانی اقدار کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ آپ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء کے بیٹے تھے، اس لیے آپ کے کردار میں نبوی اخلاق، علوی شجاعت اور فاطمی تقویٰ کی جھلک نمایاں تھی۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ حق و سچ اور عدل و انصاف کی حمایت کی اور ظلم و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی۔ آپؑ کی شخصیت میں علم و حکمت، سخاوت اور عبادت گزاری کے اوصاف نمایاں طور پر شامل تھے، جو آپ کو ایک مکمل رہنما کی حیثیت دیتے ہیں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کردار انسانی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں موڑ ثابت ہوا، خاص طور پر کربلا کا واقعہ جس نے ظلم کے خلاف مزاحمت کی لازوال داستان رقم کی۔ آپ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے دکھایا کہ اصولوں پر سودے بازی قطعاً نہیں کی جا سکتی، چاہے اس کے لیے جان اور خاندان کی قربانی دینی پڑے۔ آپ نے اپنے چھوٹے سے وفادار گروہ کے ساتھ حق کی بقا اور احیاء کے لیے ناقابلِ شکست ایمانی، اخلاقی اور روحانی قوت کا مظاہرہ کیا۔ کربلا محض ایک جنگی معرکہ نہیں تھا، بلکہ یہ حق و باطل کے درمیان ایک واضح امتیاز تھا، جس میں امام حسین نے ثابت کیا کہ ظلم کے سامنے جھکنا دراصل ایمان کی موت ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اور کردار کا اثر صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے درس دیا کہ انصاف اور آزادی کی خاطر قربانی دینا عین زندگی ہے۔ آپ کا یہ پیغام آج بھی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ حق پر قائم رہنا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں۔ آپؑ کی قربانی نے ثابت کیا کہ اصل فتح دنیاوی طاقت نہیں، بلکہ اصولوں کی بالادستی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام متعین کرنے کے لیے سب سے بہترین پیمانہ خود تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارک ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانوادہ نبوت کے ایک عزیز ترین رکن اور محبوب ترین فرد تھے۔ آپ کا تذکرہ ہمیشہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حد درجہ محبت اور شفقت سے کیا اور سب پر ثابت کیا کہ حسین مجھے کس قدر عزیز ہے۔ آئیے اس سلسلے میں چند ایک اقوال مبارکہ کا تذکرہ کرتے جن میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کا تعین ہوتا ہے۔

تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں”۔(ابنِ ماجہ حدیث نمبر 144)

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اے فاطمہ میں، تم اور یہ دونوں یعنی حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور یہ سونے والا یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ قیامت کے روز اکھٹے ہوں گے”۔ (رواہ احمد)

عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ وہ زینب بنت آبی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا: "رحمتہ اللہ علیکم اھل البیت۔ یعنی اس گھرانے پر اللہ کی رحمتیں ہیں”۔ (رواہ طبرانی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا: جس کے ساتھ تمہاری جنگ اس کے ساتھ میری جنگ اور جس کے ساتھ تمہاری صلح اس کے ساتھ میری صلح”۔ (ترمذی حدیث نمبر 387)

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مرتبہ حسن و حسین کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے نواسے آئیں ہیں انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عنایت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حسن میری سیادت و ہیبت اور حسین میری جرآت اور سخاوت کا وارث ہوگا”۔ (رواہ طبرانی)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنتی عورتوں کی سردارہ ہیں، ہاں مگر جو فضیلت مریم بنت عمران کو حاصل ہے وہ اپنی جگہ ہے”۔ (رواہ احمد)

مذکورہ بالا تمام احادیث سے بخوبی واضح ہوا کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم تاجدار کائنات کو کس قدر عزیز تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات محبت و شفقت میں جتنا حصہ ان دو محترم و مکرم نفوس کے حصے میں آیا شاید ہی کسی اور کے حصے میں آیا ہو۔

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سردار دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق صرف خونی یا نسبی نہیں بلکہ دینی، روحانی اور نبوی فیوض و برکات کا بھی احاطہ کیا ہوا تھا۔ اس محبت، شفقت اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ صاحبان جس درجے میں دین، روح دین اور مصالح دین کو اپنے انتہائی گہرائی اور گیرائی سے سمجھتے تھے کوئی اور اس معاملے میں ان کے ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔

حضرت امام حسین ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت ہجرت کے چوتھے سال چھ شعبان المعظم کو ہوئی۔ (البدایہ والنہایہ) اس حساب سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تقریباً سات برس تک اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت و صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع میسر آیا جس کو برسوں نہایت قریبی حال احوال میں شارع اعظم کو دیکھنے، سننے، سمجھنے اور اس سے سیکھنے کی نعمت ملی ہو، یہ حقیقت خود اس کی ممتاز حیثیت پر شاہد ہے۔

معروف انقلابی عالم اور مصلح مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اپنے بصیرت افروز مضمون "شہادت امام حسین” میں رقم طراز ہیں کہ

"حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکومت وقت سے ٹکرا کر یہ بات ثابت کی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہے جیسے بچانے کے لیے ایک مومن اگر اپنا سر بھی دے دیں اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا دے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ مہنگا سودا نہیں اور ان خصوصیات کے مقابلے میں دوسرے تغیرات دین و ملت وہ آفت عظمیٰ ہیں جیسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اپنا سب کچھ اگر قربان کرنا پڑے تو اس میں دریغ نہیں کرنا چاہیے، کسی کا جی چاہے تو اس کو حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لیں مگر حضرت امام حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں یہ سراسر ایک دینی کام تھا اس لیے انہوں نے اس کام میں اپنی جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی”۔

جب دین اور اقتدار کے درمیان ٹکراؤ کے حالات پیدا ہوگئے تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش نہیں رہے اور انہوں نے وہی کچھ کیا جن کو وہ ازراہ دین درست اور ضروری سمجھتے تھے۔

دونوں فریق میں سے ایک یعنی حضرت امام حسین دین کی مصلحتوں سے کما حقہ واقف تھے جبکہ دوسرا فریق یعنی یزید اقتدار کے رازوں کو "بہتر” طور پہ سمجھتا تھا۔ ایک کا واسطہ دین اور نبوت سے نسل درنسل تھا جبکہ دوسرے کی وابستگی اقتدار سے پشت در پشت چلی آرہی تھی یہی چیز دونوں کو باہم مد مقابل لے آئیں اور وہ واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلم تاریخ کو بے حد متاثر کیا۔ بلا شبہ واقعہ کربلا ہماری تاریخ کا ایک نہایت اندوہناک سانحہ ہے اور اس سانحہ نے امت کے حال احوال کو جس گہرائی اور گیرائی سے متاثر کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسین نے ایک نازک وقت میں جان ومال اور عزیز و اقارب کی قربانی دے کر دراصل حق کے ساتھ ناحق کی آمیزش کا راستہ روک دیا حضرت امام حسین نے کوئی بڑی خرابی محسوس کی تب وہ ڈٹ گئے اور ایسی قربانی دی جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے حق و ناحق میں امتیازی لکیر کا کام دیتی رہی گی۔

یہ قربانی کیوں دی گئی؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور ہمارے لیے اس میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟ اسلام اصولی طور پر دولت، اقتدار، مواقع اور علوم کو گردش میں رکھنا چاہتا ہے۔ اسلام قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ چیزیں مخصوص دائروں اور طبقوں میں مرکوز ہو کر رہ جائیں اور پورے سماج میں ان کی گردش کے راستے بند ہو لیکن جب اہل اقتدار نے اقتدار کو گردش میں رکھنے کی بجائے اس کو ایک ہی خاندان میں اجتماعی شورائیت، ذاتی استحقاق اور عمومی اعتماد کو نظر انداز کر کے صرف نام زدگی سے مرکوز رکھنے پر اصرار کیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بے اصولی کو قبول کرنے سے صاف انکار کیا۔

دوسری حقیقت یہ کہ جب بھی کوئی طاقت کا سہارا لے کر عام لوگوں کے حقوق کو غصب کرنا چاہے تو اس کے خلاف اٹھنا ازراہ دین فرض ہے اور یہ ایسا فرض ہے کہ جس میں غفلت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ورنہ معاشرے جنگل میں بدلنے سے پھر کوئی بھی طاقت اور کوئی بھی چیز نہیں روک سکتی۔

تیسری حقیقت یہ کہ ہمارے لیے اس واقعے میں جو سبق موجود ہے وہ یہ کہ اگر ہمیں لگے کہ اجتماعی توازن کو نقصان پہنچانے والی خرابیاں سر اٹھانے لگ جائیں تو ان کے خلاف ضرور ڈٹ جانا چاہیے۔ اجتماعی توازن کو توڑنے والی خرابیاں سماج میں خیر و ترقی کے تمام راستے بند اور امکانات کو ختم کر دیتی ہیں۔ ایسی خرابیاں قابلِ قبول ہوتی ہیں نہ ہی قابل برداشت۔

آج جبکہ ہم واقعہ کربلا سے چودہ صدیوں کی مسافت پر موجود ہیں اور اپنے زمانے کے بے شمار بحرانوں سے ہر سطح پر نبردآزما ہیں تو یہ لازم ہے کہ واقعہ کربلا ہمارے لیے محض وقتی جذباتیت کے سمندر میں ڈوبنے اور ایک ثقافتی رسم بنا کر نبھانے کے بجائے اس سے اپنی اجتماعی زندگی میں موجود اس قابل اصلاح بگاڑ کے حوالے سے شعور و ادراک اخذ کریں جو ہر کچھ عرصے کے بعد مسلم معاشرے میں کسی نہ کسی کربلا کو جنم دیتی ہے۔ آج چاروں اطراف نگاہیں اٹھا کر دیکھ لیں کیا سینکڑوں کربلائیں بشمول فلسطین اور کشمیر برپا نہیں؟ کیا امت کا غالب ترین حصہ حسینی قربانیوں سے نہیں گزر رہا؟ کیا مسلمانوں کے درمیان تقسیم و تفریق کی وہ گہری لکیریں آج بھی کھینچی ہوئی موجود نہیں جو واقعہ کربلا کے وقت پائی جاتی تھیں؟

ہم اگر سوچیں تو یہ حقیقت سمجھنا قطعاً مشکل نہیں کہ ہماری تاریخ بے شمار کربلاوں سے بھری ہوئی ہے اور اکثر کربلائیں مسلمانوں نے خود ایک دوسرے پر مسلط کئے ہیں ہم اکثر و بیشتر حق و انصاف کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے وقتی اغراض و مفادات کے ایسے چکروں میں پڑ جاتے ہیں جو کہ نہ صرف بد ترین مظالم اور سانحات کا باعث بنتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے سے دور اور بری طرح متنفر بھی کر دیتے ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہماری درست سمت میں رہنمائی فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ چلنے کی توفیق بھی نصیب فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے