واقعۂ کربلا اور ہمارا ردِّ عمل

قرونِ اُولیٰ کے بعد ہم بحیثیتِ مجموعی ایسے رویّوں کے علمبردار بنے جن سے ہم نہ خود مستفید ہو سکے اور نہ ہی دنیا کو کچھ دینے میں کامیاب ہو سکے۔ امت میں دنیا کی آبادی کے نسبت سے بہت کم لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے کوئی اجتماعی کارنامے سرانجام دیے۔ اگر چند افراد نے اپنی جانوں پر کھیل کر امت کے لیے کوئی سرمایہ چھوڑا تو ہم نے اس سرمایے کا وہ حشر کیا جو انسانوں کی کوئی مہذب جماعت اپنے اسلاف کے کارناموں کے ساتھ نہیں کرتی۔ ہمارے اسلاف نے اپنے ترکے میں ایسے ایسے کارنامے ہمارے لیے چھوڑے جو تا ابد ہماری رہنمائی کے لیے کافی تھے، مگر ہم نے ان کی قدر شناسی نہیں کی۔ مجموعی طور پر ان سارے کارناموں کو اگر دیکھا جائے تو وہ پوری زندگی پر محیط ہیں۔

زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں ہمارے پاس کوئی مستند تاریخی رہنمائی موجود نہ ہو: علم، حرب، امن، محنت، دانشمندی، اخلاص، للّٰہیت، انسانیت، عزم، بہادری، صبر، استقامت—الغرض ایسی کوئی خوبی اور ایسا کوئی میدان نہیں جس میں ہمارے لیے موجودہ دور میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے رہنمائی موجود نہ ہو۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہم نے اپنے ہی رویّوں کی وجہ سے اس سارے سرمایے کو ضائع کیا۔ اپنے منفی رویّوں کی وجہ سے ہم نہ خود اس عظیم سرمایے سے مستفید ہو سکے اور نہ ہی کسی اور کے لیے اس عظیم سرمایے کی طرف داعی کا عملی کردار ادا کر سکے۔

اپنے رویّوں کی وجہ سے ہم اِس قدر کمال مثبت سرمایے سے عملی اور علمی طور پر کیسے محروم ہو گئے، اسے سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال لیتے ہیں۔ ہمیں جب کوئی سیدنا ابراہیمؑ کا واقعہ سناتا ہے تو واقعہ سننے کے بعد ہم پوچھتے ہیں کہ اچھا، جو مینڈھا ابراہیمؑ نے ذبح کیا تھا اُس کے گوشت کو پھر کس نے کھایا، اُس کے سری پائے کا کیا کیا گیا۔ قرآنِ مجید نے ہمیں ابراہیمؑ کے واقعے سے کیا سکھانا تھا اور ہم کن معلومات کے پیچھے پڑ گئے!

واقعہ اس لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ جب معاملہ رضائے الٰہی کا ہو تو ایک مومن کو کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور ہم نے اسے رخ دے دیا! کیا ایسے رویّوں کے حاملین اس لائق ہیں کہ وہ اجتماعی طور پر دنیا کے سامنے خدا کے لیے ایسی قربانی کا مظاہرہ کریں جس سے وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی عملی گواہی دے سکیں؟

اسی طرح ہم اپنے شہروں اور قصبوں میں مختلف بزرگوں کے مزارات دیکھتے ہیں۔ ان بزرگوں کے مزاروں کے ساتھ ہمارا جو مجموعی رویّہ ہے، کیا وہ اسی پیغام کا حامل ہے جو پیغام یہ بزرگ چھوڑ کر گئے ہیں؟

ہم صرف مینڈھے کے گوشت تک اپنا سوال محدود نہیں رکھتے بلکہ اس بنیاد پر کفر، شرک، فسق اور گمراہی کے فتوے بھی دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر لوگ مختلف متشددانہ مکتبِ فکر میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ دیکھیں بھائی، اگر گوشت کا معاملہ اتنا اہم ہوتا تو خدا اپنے کلام میں یا رسول اللہﷺ اپنی احادیث میں اس کے بارے میں تصریح فرما دیتے۔ جب کسی بات کو خدا اور اس کے رسول نے مبہم چھوڑا ہے تو تم بھی اسے معلوم کرنے میں اپنی توانائی صرف نہ کرو بلکہ اپنی توانائی اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں استعمال کرو جو اللہ پاک اس واقعے کے ذریعے دے رہے ہیں۔

اس حقیقت پسندانہ رویّے کو اپنانے سے ہمارے اندر جو افتراق اور وقت کا بے جا اسراف آیا ہے اس کی روک تھام ہو سکے گی۔

بالکل یہی منفی رویّہ ہمارا واقعۂ کربلا کے ساتھ بھی ہے۔ واقعۂ کربلا بنیادی طور پر ہمارے پاس علمی اور عملی جدوجہد کا ایک عظیم سرمایہ ہے لیکن ہم نے اسے ایک مصیبت بنا لیا ہے۔ مصیبت یوں کہ ایک بندہ اُٹھ کر یزید کو گالی دیتا ہے، دوسرا یزید کے دفاع میں کھڑا ہو کر پہلے کو گالی دیتا ہے، اور انجامِ کار نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ درمیان میں کسی اور بندے پر اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ واقعۂ کربلا سرے سے ہوا ہی نہیں، یہ سب تاریخی جھوٹ ہیں؛ لیکن یہ بہادر صرف اپنی رائے دینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے اپنی رائے منوانے کے لیے فتووں کی دکان بھی کھول لیتا ہے۔ ارے بھائی! کیا تم سے پہلے امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام باقر، امام غزالی، امام ابن تیمیہ، امام شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ نے اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا؟ اور اگر لکھا ہے تو مسئلے کے درست فہم کے لیے ان کی طرف رجوع کرو، نہ کہ اپنی طرف سے من گھڑت تصورات پیش کر کے امت کے نقصان کا باعث بنو۔

اب آئیں واقعۂ کربلا کے اصل سبق کی طرف کہ اس سے ہمیں کیا سیکھ ملتا ہے۔ واقعۂ کربلا میں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے ایسی قربانی دی کہ اس سے ایک طرف نظام کی تبدیلی کے لیے مردِ مؤمن کا کردار ظاہر ہوتا ہے اور دوسری طرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نظام قائم کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم واقعۂ کربلا سے اسلامی نظام کے قیام اور اس کے لیے سر توڑ جدوجہد کی اہمیت کا اندازہ لگاتے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ بھی اس واقعے پر لکھتے ہیں جو سرے سے اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کے قائل ہی نہیں—یعنی واقعے کی اصلیت کو کھو کر محض اسے ادبی پیاس بجھانے کا سامان بنا دیا گیا ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ غیر مسلم نہیں کر رہے بلکہ مسلمان کر رہے ہیں، اور مسلمانوں میں بھی زیادہ تر وہ طبقہ اس واردات میں شامل ہے جو اپنے آپ کو اہلِ علم سمجھتا ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم نکتہ جو اس واقعے سے سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اور آپ کے پاس تعداد و وسائل کی حد درجہ کمی کیوں نہ ہو، پھر بھی مایوس ہو کر گوشہ نشین نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کرنی چاہیے۔ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں حالات درست سمت میں نہ بھی جائیں اور آپ کی جدوجہد کا کوئی وقتی نتیجہ نہ بھی نکلے، لیکن آپ تو اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ خدا نے ہمیں اپنی بساط کے مطابق ذمہ دار بنایا ہے۔ اگر ہم غور سے اپنا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کہ واقعۂ کربلا سے ہم نے نہ اسلامی نظام کے قیام کی اہمیت کو سمجھا ہے، نہ اس کے قیام کے لیے جدوجہد کی اہمیت سے آگاہی حاصل کی ہے اور نہ ہی انقلاب کے لیے نامناسب حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا سیکھا ہے۔

اس ساری بحث کا لبِّ لباب یہ بنتا ہے کہ ہمیں قرآن و سنت اور اپنے اسلاف کے چھوڑے ہوئے سرمایے کے اصل پیغام کی طرف رجوع کرنا چاہیے، بے جا سوالات اور ابحاث میں اپنی صلاحیتیں ضائع نہیں کرنی چاہییں۔ اس رویّے کو اپنانے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہماری پوری توجہ پیغام کی اصل رُوح کی طرف ہوگی اور جب کسی شے کی طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ کی جائے تو اس کا علمی اور عملی اثر انسان کی شخصیت پر لازماً پڑتا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ اس رویّے کو اپنانے سے یہ ہوگا کہ امت کے اندر پائے جانے والے متشددانہ اختلاف کا خاتمہ ہوگا اور نتیجتاً امت میں اتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہو جائے گی۔ ہمارا یہ طرزِ عمل غیروں کے لیے اسلام کی دعوت کا ذریعہ بھی بنے گا اور اس رویّے کے ذریعے اسلام مخالف افواہوں کا سدِّباب بھی کافی حد تک ہو جائے گا، لیکن جب تک ہم غیر ضروری ابحاث اور سوالات کا رویّہ ترک نہیں کریں گے اس وقت تک نہ ہم خود قرآن و سنت اور اپنی شاندار ماضی سے کماحقہٗ مستفید ہو سکیں گے اور نہ ہی اس خزانے میں موجود قیمتی جواہرات سے دنیا کو روشناس کر سکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے