ہمارا مسئلہ دین نہیں،فرقہ و مسلک ہے۔ہم اسی عصبیت میں جیتے اور اور اسی کو دین سمجھتے ہیں۔ہم اپنی فرقہ وارانہ شناخت کا تحفظ کے لیے پُر جوش ہیں نہ کہ دین کے لیے۔
امت کا مرکز ومحور پیغمبر کی ذات ہوتی ہے۔پیغمبر ہی سے امت بنتی ہے۔اس شجر طییبہ سے بہت سے شاخیں پھوٹتی ہیں۔وہ لوگ جو حالتِ ایمان میں آپ کے ساتھ رہے(الذین معہ)۔وہ جنہوں نے آپ کے گھر میں،آپ کی صحبت میں وقت گزارا(امہات المومنین،آپ کی بیٹیاں، نواسے نواسیاں، خدام)یہ سب ہمارے سر آنکھوں پر۔ ہمارا ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ ہے جو بہت گہرا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ یہ اس پاکیزہ شاخ کے برگ و بار ہیں جو ہماری محبت و عقیدت کا حقیقی مرکز ہے۔ہم جب شجر کے بجائے شاخوں کو اپنی شناخت بناتے ہیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے۔یہیں سے فرقہ وارانہ عصبیت جنم لیتی اور پھر دیوارکھڑی ہو جا تی ہے۔
فرقے سے آگے ایک درجہ اور ہے۔یہ مسلک ہے۔ان شاخوں پر جو رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں، جوپھل لگتے ہیں،ہمارے جسم و جاں ان سے معطر ہوتے اور ہماری روحانی غذا کا سامان بنتے ہیں۔یہ ہماری ضرورت ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں۔ان کا یہ رنگ اور ذائقہ اس وجہ سے ہے کہ یہ اسی شجرِ طییبہ کا حصہ ہیں۔یہ ان کا شخصی جوہر نہیں۔اگر یہ اس شجر سے الگ ہو جائیں تو ہمارے لیے ناقابلِ ذکر ہو جائیں۔ہم ایک درجے میں ان کو بھی اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔یہ مسلکی تعصب ہے۔یہ تعصب کی ایک اور دیوار ہے جو ہم کھڑی کر دیتے ہیں۔اب ایک شجر کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں اور ہم نے ان کے درمیان دیواریں کھڑی کردی ہیں۔دیوار کےاس طرف رہنے والے، ان پھولوں کی مہک سے محروم ہیں جو دوسری طرف کھلے ہیں۔اُدھر بیٹھا ہوا اس پھل کے ذائقے سے بے خبر ہے جو دیوار کے اِس طرف ہے۔
نقصان میں کون رہا ؟وہ سب جنہوں نے خود کو کسی ایک شاخ سے وابستہ کر لیا۔وہ دوسرے شاخوں پر اگنے والے خیر سے محروم رہ گئے۔نفع میں وہی رہا جس نے اُس پاکیزہ درخت کو اپنی شناخت بنایااور اس سے جڑی ہر شاخ پر اگلے والا پھل اور پھو ل سے اپنی روحانی و اخلاقی بالیدگی اور صحت کا اہتمام کیا۔یہ ابوبکرؓ وعلیؓ ہوں یا عائشہؓ و فاطمہؓ، ان کی پاکیزہ سیرتوں سے اپنےا ور اہلِ خانہ کے کردار کو منور کیا۔ تمام فقہوں اور علما سے راہنمائی لی اور سفینہ حیات کو بحرِ شریعت سے نکلنے نہیں دیا۔یہ جانتے ہوئے کہ ہدایت کاواحد ماخذ اللہ کے رسول ہیں۔ﷺ ۔
ہم سڑکوں اور چوراہوں پر جو جوش وخروش دیکھتے ہیں،یہ سب ہماری فرقہ وارانہ اورمسلکی شناختوں کا اظہار ہے جسے ہم دین کے عنوان سے بیان کر تے ہیں۔اس سے تعلق باللہ کو مضبوط کرنا مطلوب نہیں کہ یہ ریاضت خلوت گاہوں میں ہوتی ہے۔اس کے لیے لوگ معتکف ہوتے ہیں۔خود کو دنیا داری سے الگ کرتے اور اپنے پروردگار کے لیے خاص ہو جاتے ہیں۔یہ اس لیے کہ جلوت میں بھی احساسِ بندگی باقی رہے۔ہم اگر گلی و بازار کی سرگرمیوں کو اپنی شہ رگِ حیات قرار دیتے ہیں تواس سے مراد ہمارے مسلک اور فرقے کی حیات ہے نہ کہ دین کی۔دین کی شناخت قرآن ہے اور رسولﷺ۔زمین پربیت اللہ ہے اور مسجدِ نبوی۔دیگر شناختیں ہمیں عزیز ہیں مگر اس شناخت کی نسبت سے۔
دین میں حفظِ مراتب اور ترتیب کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ترتیب بدل جانے سے دین کی صورت بدل جا تی ہے۔لوگ اس کی سنگینی کو نہیں جانتےاوراسی سے افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں۔یہی وہ بے احتیاطی ہے، اہلِ کتاب جس کا شکار ہوئے۔قرآن مجید نے اس کو بطورِ خاص بیان کیا۔ ہمارے اور اہلِ کتاب کے مابین اصل فرق تلاش کیا جائے تو وہ یہی ہے۔
سیدنامسیح ؑ ہمارے ایمان کا بھی حصہ ہیں مگر ہم انہیں اللہ کا بندہ اور رسول مانتے ہیں۔قرآن مجید کے مطابق انہوں نے گہوارے میں کلام کیااور اپنا تعارف یہی کرایا کہ ’میں اللہ کا بندہ ہوں۔سیدہ مریم ؑ کا قرآن مجید نے جس اسلوب میں ذکر کیاہے،واقعہ یہ ہے کہ الہامی ادب میں اس کی کوئی مثال مو جود نہیں۔یہ بیان مگر جس طرح حفظِ مراتب کے ساتھ ہوا ہے،وہ خود قرآن مجید کے خدا کا کلام ہونے کی شہادت ہے۔
ہم نے فرقہ وارانہ ا ور مسلکی تقسیم پر اصرار کیا اور سال کے دنوں کو اپنے مابین تقسیم کر لیا۔محرم اہلِ تشیع کے نام ہو گیا اور ربیع الاوّل بریلوی مسلک نے اپنے نام کر لیا۔واقعہ یہ ہے کہ یہ سب دن اللہ کے ہیں اور ان لوگوں سے ہمارا تعلق اسی نسبت سے ہے۔یکم محرم کو سیدناعمرؓ شہید ہوئے اور دس محرم کو سیدنا حسین ؓ ۔رمضان میں سیدہ عائشہ ؓ کی وفات ہوئی اور سیدنا علی ؓ کی شہادت بھی اسی مہینے میں ہو ئی۔اس میں چندمستثنیات ہیں۔
جیسے یومِ عرفہ۔جیسے ماہِ رمضان۔دیگر تمام ایام ان معنوں میں ایک جیسے ہیں کہ ان شخصیات سے ہمارا تعلق بھی یکساں طور پر قائم رہنا چاہیے۔جنہیں ہم محرم میں یاد کرتے ہں،ان کی سیرت کوہم سال کے دوسرے مہینوں میں بھی فراموش نہ کریں۔اس میں شبہ نہیں کہ کچھ دن کسی واقعی کی نسبت سے اہم ہو جاتے ہیں اور انہیں بطورِ خاص منا یا جا تا ہے۔اس میں حرج نہیں۔حرج اس میں ہے کہ اسے تشخص کے طور پر منایا جائے نہ کہ ایک پیغام کی یاد دھانی کے لیے۔
پاکستان میں محرم کے جلوسوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا کیوں ہے؟جب سیدنا حسین ؓ ابن علی ؓ سب مسلمانوں کے لیےیکساں محترم ہیں تو خو ف کس سے ہے؟ یہ کالم اسی سوال کا جواب ہے۔ایک طرف وہ نابالغ واعظ اور ذاکر ہے جس کی ابھی تک مسیں بھی نہیں بھیگیں اور وہ ممبر پر آبیٹھاہے۔اس کے لیے جلوس دینی سرگرمی نہیں،ایک گروہی امتیاز کی نشانی ہےیا مالی منفعت کا ذریعہ۔دوسری طرف وہ شخص بیٹھا ہے جو اس جلوس کو اپنے تشخص کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے۔دونوں کا دھیان سیدنا حسین ؓ کی شخصیت اور کردار کی طرف نہیں ،اپنے اپنے تشخص کی طرف ہے۔ایک کا خیال ہے کہ جلوس برآمد ہوا تو یہ مخالف فرقے کے غلبے کا اظہار ہے۔
دوسرا اس گمان میں ہے کہ جلوس نہ نکلا تو اس کی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔یوں تصادم کی وہ صورت پیدا ہو جاتی ہے ،جس سے بچنے کے لیے جلوس پولیس کے پہرے میں چلتے ہیں۔
حل ایک ہی ہے۔مسلمان اپنی شناخت کا واحد حوالہ اپنے رسول اور نبی سیدنا محمد ﷺ کو بنائیں۔اللہ نے ان کا نام ’مسلمان‘ رکھا ہے اور انہیں آخری نبی ﷺ کا امتی بنایا ہے۔ہر نبی کے امتی اپنے اپنے دورکے مسلمان تھے اور ان کا دین اسلام تھا۔اب قیامت تک نبی ﷺ کا دور ہے،اس ،لیے آپ کے سب امتی مسلمان ہیں۔یہی ہماری شناخت ہے۔اسی میں ہماری عزت ہے۔اقبال نے اسی کو بیان کیا ہے کہ:آبروئے ما زنام ِمصطفیٰ است‘۔ ختِم نبوت پراقبال کا اصرار اسی سبب سے ہے۔انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ہم تشخص کے لیے اس نسبت کو کم اہم سمجھتے ہوئے،اگر کسی اور شناخت کو حوالہ بنائے گے تو اس میں چھپے خفیہ اشارے کونظر انداز کریں گے۔ خبر دار رہیں کہ ایسی شناختوں اور گروہ بندی پہ اصرار بطور امت،ہمارے لیے کتنا خطر ناک ہے۔اگر ہم محرم کے ان ایام میں اقبال کی بات کو سامنے رکھیں تو شاید جلوسوں کے لیے پولیس کے پہرے کی ضرورت نہ رہے۔اقبال کا کہنا ہے:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیارباش
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش