ایران-اسرائیل جنگ میں سعودی عرب کا خفیہ کردار

13 جون 2025 کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے نیوکلیئر اور فوجی مراکز پر حملوں کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل-ایران جنگ کے دوران، سعودی عرب نے اگرچہ بظاہر ان حملوں کی شدید مذمت کی، مگر معتبر بین الاقوامی ذرائع کے مطابق، اس نے پس پردہ اسرائیل کے دفاعی اقدامات میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ دہرا طرزِ عمل — یعنی حملوں کی بظاہر مذمت مگر حملہ آور کے ساتھ خفیہ تعاون — نہ صرف ریاض کی سٹریٹیجک ترجیحات کو مبہم بناتا ہے بلکہ اس کی علاقائی ساکھ اور ایران کے ساتھ تعلقات کی مستقبل کی سمت پر بھی گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔

ڈوئچے ویلا، عرب سینٹر ڈی سی، اسرائیل ہیوم، واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جرنل (DW, Arab Center DC, Israel Hayom, Washington Post and Wall Street Journal) کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق، سعودی عرب نے ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کے دوران امریکی اور اسرائیلی افواج کو ریڈار معلومات اور انٹیلی جنس (خفیہ معلومات) فراہم کیں۔

یہ تعاون ایران کی جانب سے فائر کیے گئے میزائلوں اور ڈرونز کی بروقت شناخت اور کامیاب روک تھام میں نہایت مؤثر ثابت ہوا۔ یہ سرگرمیاں امریکی سینٹکام (CENTCOM)، اردن، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے غیر رسمی فضائی دفاعی نیٹ ورک کا حصہ تھیں۔

اس کے ساتھ ہی، قابل اعتماد دفاعی ذرائع اس کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سعودی عرب نے ممکنہ طور پر اسرائیلی طیاروں کو اپنی شمالی فضائی حدود سے گزرنے کی خاموش اجازت دی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کے دباؤ میں اسرائیل کی فضائی خلاف ورزی پر خاموشی اختیار کی ہو۔

اگرچہ ریاض نے اس کی کوئی باضابطہ تصدیق یا تردید نہیں کی، مگر علاقائی فضائی نقل و حرکت اور عسکری معلومات سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ سعودی فضائی حدود، خاص طور پر شمالی علاقوں میں، اسرائیلی دفاعی یا انٹرسیپٹر طیاروں کے لیے عملاً کھلی رکھی گئیں۔

سب سے اہم اور حساس نکتہ یہ ہے کہ سعودی افواج نے خود بھی بعض ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو اپنے علاقے یا عراق و اردن کی سرحدوں کے قریب تباہ کیا، یہ پروجیکٹائلز ایران کی جانب سے اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے تھے۔

سعودی عرب کا اسرائیل اور خطے میں امریکی نیٹ ورک کے ساتھ یہ تعاون ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے دفاع میں ایک فعال کردار ادا کیا اگرچہ سعودی عرب نے اسے تسلیم نہیں کیا — جس سے نہ صرف اس کے رسمی مؤقف کی تردید ہوتی ہے بلکہ اس کے علاقائی کردار میں تبدیلی کا بھی پتہ چلتا ہے۔

اس پس منظر میں ایک اور اہم پہلو جس کا ذکر عموماً کم ہم زیرِ بحث رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ سعودی عرب “ابراہم معاہدوں” (Abraham Accords) کا رسمی فریق نہیں ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل کو عملی سہولت فراہم کی ہے۔

حوثیوں کے بار بار کے حملوں کے باعث جب اسرائیل کی بندرگاہ ام رش رش (ایلات) پر سامان لانا ممکن نہ رہا، اور وہاں تجارتی رسد میں کمی پیدا ہوئی، تو اسرائیل نے اپنی ضروری اشیاء متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں پر اتار کر ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن کے زمینی راستوں سے اسرائیل منتقل کیں۔

اگرچہ اس کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں کی گئی، لیکن خطے میں لاجسٹک نیٹ ورکس اور زمینی نقل و حمل کی نگرانی کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق، سعودی عرب کی سرزمین اسرائیل کے لیے متبادل تجارتی راستے کے طور پر استعمال ہوئی۔

یہ اقدام سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ عملی تعاون کی ایک اور خاموش شکل تھی، جو اس کے سرکاری موقف سے متصادم ہے۔

سرکاری طور پر سعودی عرب نہ اسرائیل کو نہ تسلیم کرتا ہے اور نہ ابراہام اکارڈز پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن خفیہ طور پر اُس کے کردار میں تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تمام پہلو درج ذیل سنگین اور دور رس نتائج کے حامل ہیں:

— سعودی عرب کی اسلامی دنیا میں ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر ان حلقوں میں جو اسرائیل سے خفیہ یا اعلانیہ تعلقات کے خلاف ہیں۔

— سعودی عرب کو اسرائیل-ایران تنازعے کے مرکز میں لا کھڑا کرتا ہے، جس کا سٹریٹیجک کنٹرول تہران یا ریاض کے بجائے واشنگٹن اور تل ابیب کے ہاتھ میں ہے۔

— ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششیں، جو چین کی ثالثی سے 2023 میں آگے بڑھیں، اب سخت عدم اعتماد کا شکار ہو سکتی ہیں۔

— داخلی طور پر، سعودی عوام میں فلسطینی کاز سے وابستگی اور اسرائیل کے خلاف جذبات کے پیشِ نظر، اسرائیل کے ساتھ اس قسم کی خفیہ تعلقات سے سعودی حکومت کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

— سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعاون اور امریکی حمایت کے ذریعے خطے میں اپنا اثر بڑھایا ہے۔ ماضی میں ایران کے خلاف فرقہ واریت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور آئندہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اگر سعودی عرب اب درحقیقت ایک ایسے غیر رسمی امریکی زیر قیادت اتحاد کا حصہ بن چکا ہے جس میں اسرائیل مرکزی حیثیت رکھتا ہے، تو اسے اپنی پوزیشن کو واضح کرنا ہو گا — اور ان سیاسی و اسٹریٹیجک نتائج کے لیے تیار ہونا ہو گا جو ایسی پالیسی کے منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آئیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے