واقعہ کربلا: ایک متوازن، جامع اور سبق آموز مطالعہ

واقعہ کربلا اسلام کی تاریخ کا ایک نہایت اہم، دردناک اور سبق آموز واقعہ ہے جو کہ 10 محرم 61 ہجری (680 عیسوی) کو پیش آیا۔ یہ واقعہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے بلکہ پورے عالم کے لیے انسانی کردار، عدل، ظلم کے خلاف مزاحمت اور ایمانی استقامت کا ایک نمایاں سبق ہے۔ اس واقعے کو حق و باطل کے درمیان ادراک کے تناظر میں سمجھنے سمجھانے کے لیے ہمیں ایک متوازن، جامع اور وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ اس واقعے کے پیچھے کار فرما مختلف النوع سیاسی، سماجی اور اخلاقی عوامل کو صحیح طور پر پرکھا جا سکے۔

تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی ریاست میں خلافت کے مسئلے پر گوں اختلافات پیدا ہوئے لیکن یہ اتنے شدید نہیں تھے بس نقطہ نظر کا اختلاف تھا جس پر تفصیلی غور و خوض کے بعد قابو پایا گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے دور میں معاشرے کے اندر سیاسی تقسیم بڑھی اور معرکہ صفین کے بعد باقاعدہ خوارج اور شیعہ گروہوں کی تشکیل ہوئی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اموی خلافت قائم کی، جو کہ بدقسمتی سے آگے چل کر موروثی بن گئی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے یزید نے اقتدار سنبھالا، جسے بہت سے صحابہ اور اہل مدینہ نے ایک مشروع حکمران کے طور پر تسلیم نہ کیا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ الزہراء کے بیٹے تھے۔ جب یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے مسترد کر دیا، کیونکہ وہ یزید کی شخصیت اور اس کے طرز حکمرانی کو اسلامی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یزید کی بیعت کرنا، ظلم و ستم، فسق و فجور اور سیاسی نااہلی کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ اسلام میں حکمران چننے کے لیے جو اصول رائج تھا وہ شورائی اور انتخابی تھا جبکہ یزید کو اس طریقے سے ہٹ کر نامزد کیا گیا اور پھر لوگوں کو مجبور کیا کہ یزید کی بیعت کر لیں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور اس کے بعد مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔ وہاں قیام کے دوران کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھ کر انہیں اپنے پاس بلایا کہ وہ ان کی امامت تسلیم کریں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حقیقی حال احوال سے آگاہی حاصل کریں، روایات میں آیا ہے کہ تقریباً اٹھارہ ہزار دعوت نامے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موصول ہوئے تھے لیکن بعد میں کوفی اپنے اس عہد و پیمان پر قائم نہیں رہ سکیں۔ کوفیوں نے وعدہ خلافی کی اور مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ کے حالات کا علم ہوا تو وہ اپنے خاندان اور کچھ چاہنے والوں کے ساتھ کربلا پہنچے، جہاں یزیدی فوج نے انہیں گھیر لیا۔

یزیدی فوج کے کمانڈر عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں، لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا۔ اگر چہ 9 محرم الحرام تک مختلف صورتوں میں رابطے اور مذاکرات ہوتے رہے لیکن کچھ ایسے افراد اور وجوہات درمیان میں حائل ہوئے جنہوں نے حضرت امام حسین اور یزید کو رو بہ رو نہیں بیٹھنے دیا حالانکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی خواہش بار بار ظاہر کی کہ مجھے یزید سے براہِ راست بات جیت کا موقع دیں اے کاش ایسا ہی ہوتا تو وہ دردناک واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا جس کے بعد امت کا اتحاد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ ہوگیا اور مسلمانوں کو پھر کبھی متحد ہو کر رہنا نصیب نہیں ہوسکا۔

10 محرم الحرام (یوم عاشورہ) کو صلح کی تمام خواہشیں اور کوششیں ناکام پر جنگ چھڑ گئی۔ میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کی تعداد 72 کے قریب تھی، جبکہ یزیدی لشکر ہزاروں میں تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارادہ جنگ کا قطعاً نہیں تھا بلکہ وہ کوفہ کے حال احوال معلوم کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش میں عازم سفر ہوئے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارادہ جنگ کا ہوتا تو وہ صرف 72 افراد (جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں) کے ساتھ کبھی نہ آتے۔ جنگ کا منظر نامہ اچانک بنا جس کا اندازہ کسی فریق کو بھی نہیں تھا۔ ایک حد درجہ غیر متوازن جنگ کے بعد حضرت امام حسین اور ان کے لڑنے کے قابل تمام ساتھی شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد خاندان کے دیگر افراد کو قید کر کے دمشق لے جایا گیا۔

واقعہ کربلا درحقیقت حق و باطل کے درمیان جاری کشمکش کی ایک نمایاں ترین مثال ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان دے دی، لیکن ظالم اور نااہل حکمران کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر انصاف اور سچائی کے لیے قربانی دینا ضروری ہو جائے تو پھر بظاہر حالات ناموافق ہونے کے باوجود اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ یزید کی نااہلی اور ظالمانہ روش کے لیے یہی ایک معاملہ کافی ہے کہ اس نے خانوادہ رسول کے ساتھ احساس، انصاف اور احترام کا سلوک نہیں کیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاملہ چند ظالم، خود غرض اور ناعاقبت اندیش کمانڈروں کے حوالے کر دیا۔ یزید میں سنجیدگی، معاملہ فہمی اور احساس و ادراک ہوتا تو خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل کر درپیش مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کرتا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنیادی اعتراض یزید کے طریق انتخاب پہ تھا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جنگ سے پہلے اپنے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحتیں کیں اور انہیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی۔ بار بار کہا مجھے یزید تک رسائی دیں میں اس سے براہِ راست ملنا چاہتا ہوں امید ہے ہمارے درمیان مسائل حل ہو جائیں اور لڑنے کی نوبت نہ آئے لیکن افسوس انہیں یزید سے ملنے نہیں دیا گیا اور تاریخ میں ایک دردناک سانحہ رونما ہوا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ طریقہ جس میں مسائل کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے کوشاں رہیں دراصل ظلم کے خلاف ایک پرامن جہدوجہد اور اخلاقی مزاحمت کی ایک توانا مثال ہے۔

واقعہ کربلا کو فرقہ وارانہ تناظر میں دیکھنے کے بجائے اسے ایک انسانی اور اسلامی اصول کے طور پر سمجھنا چاہیے۔ یہ واقعہ تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم اور نااہلی کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے کیونکہ ایسا ازروئے دین و ایمان ایک فرض قرار پاتا ہے خواہ حالات کتنے ہی سخت اور ناموافق کیوں نہ ہوں۔ ظلم اور نااہلی پر خاموشی، ان عیوب کو معاشرے میں دوام بخشتی ہے جن سے پھر زمانوں تک نجات ممکن نہیں۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں سمیت اربوں انسان نااہلی پر راضی اور طرح طرح کے ظلم و ستم پر خاموش بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ظلم، بدامنی، عیاشی اور نااہلی جیسی مصیبتیں انسانیت پر بری طرح مسلط ہیں اور دولت و طاقت کے وسائل فلاح و بہبود کی بجائے باقائدہ تباہی و بربادی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

واقعہ کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ انسانی ضمیر، ایمان اور عدل و انصاف کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حق کے لیے کھڑے ہونا، چاہے اس کی قیمت جان دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ دینی پڑے، یہ حقیقت میں انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ اس واقعے سے ہمیں اصول پسندی، نااہلی کو قبول نہ کرنے اور انصاف کے خاطر مزاحمت کا سبق لینا چاہیے، نہ کہ واقعہ فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینے کا ذریعہ بن کر رہ جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر زمانے میں حق و باطل کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے اور ہر انسان کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے