حکومت ، أھل مدارس اور عوام سے گذارش

بلاشک و شبہ مسائل دین سے آگاہی باعث فضیلت امر ہے ، قرآن میں خالق کائنات نے جاہل اور عالم کے مابین واضح فرق رکھا ہے لیکن قطع نظر اس فرق کے کچھ سنجیدہ و پیچیدہ عمل محل نظر ہیں ۔

میرا تعلق چونکہ مدارس دینیہ کے قبیل سے بھی ہے لہذا روئے سخن بھی اولا اہل مدارس ، ثانیا حکومت پاکستان اور ثالثا وطن پاکستان کی عوام ہے ۔

دین مبین کا مقصد دعوت و اتحاد ہے نہ کہ فساد و اختلاف اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام تر احکامات یگانگت کی طرف توجہ دلاتے ہیں ، نماز کے لئے صف میں محمود و ایاز کی بیک جنبش صدا برابری ہو یا قاضی منصور کا اپنے بیٹے کو کئے گئے جرم کی پاداش میں اپنے ہاتھ سے سولی چڑھانا ، خلیفہ ہارون الرشید کا اپنے بھانجے کو جرم کرتے ہوئے جا دبوچنا اور پھر اپنی تلوار سے موقع پر ہی اس کا سر تن سے جدا کردینا ہو یا عمر بن عبدالعزیز اور ان کی اولاد کا بروز عید بوسیدہ کپڑے پہننا ۔

واقعات سے تاریخ بھرپور ہے اور تمام تر واقعات ہمیں چیخ چیخ کر بتلانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ اسلام اپنے انصاف ، یگانگت ، اتحاد ، دعوت اور نرمی ہی کی وجہ سے بقیہ تمام ادیان سے ممتاز ہے اور رہے گا ۔

تاریخ اپنی جگہ مسلمہ لیکن ذرا حال پر نظر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ حال قریب میں ممتاز قادری کا واقعہ پیش آیا ، ممتاز قادری کے متعلق تمام علماء اس بات پر تقریبا متفق ہیں کہ قادری کا قانون ہاتھ میں لینا غلط تھا البتہ اسکی نیت اور اخلاص میں شک ہمارے لئے نامناسب ہے ، اللہ کے ہاں ممتاز قادری کے مقام و مرتبہ کے لئے دعا ہے لیکن اسلام کے بیان کردہ معاشرتی قوانین و اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” علمھا عند ربی ” اس کے احوال کا علم اللہ ہی کو ہے ۔


سوال یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کے پیش آنے کی وجہ کیا ہے ؟

احتمال خطاء کے ساتھ درست بات یہ ہے کہ ہمارے علماء اور عوام کی دین اسلام کے مطابق تربیت کا نہ ہونا ہی اصل وجہ ہے ۔

کوئی شک نہیں کہ اخلاص و جذبہ ہمارے عوام و علماء کا خاصہ ہے اور اس میں مزید شدت شرع کے لئے پیدا ہوجاتی ہے لیکن عوام اپنے اخلاص و جذبہ کے استعمال و اظہار کے لئے غلط طریق کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں ، ہمارے علماء کرام بھی جوش خطابت میں زبان سے نکلنے والے الفاظ کو من جانب اللہ سمجھتے ہوئے بنا سوچے سمجھے ادا کرتے چلے جاتے ہیں ۔

جہاں قوم کا حال یہ ہو کہ وہ دنیاوی امر کے لئے سوچ و بچار کرے اور اسلام کے احکامات پر محض جوش و جذبہ کی وجہ سے بنا سوچے سمجھے عمل کرتی چلی جائے تو اس قسم کے واقعات ہی قوم کا مقدر ٹہرتے ہیں ۔

کسی بھی شخص کو گستاخ رسول یا کافر و مرتد قرار دینا اور پھر اس کے قتل کے فتوے جاری کرنا میرے لئے دنیا کا مشکل ترین کام ہے ، ایک ایسا کام جو شاید میں زندگی بھر نہ کر سکوں اور اپنی اس حسرت پر آنسو بہاتے لحد تک جا پہنچوں لیکن یہی کام ہمارے علماء کے لئے نہایت آسان و سادہ ہے ، انہیں بس اتنی تیاری کرنی ہوتی ہے کہ ایک اسپیکر اور کچھ مجمع لگا لیا جائے اور بس ، پھر اندر کے وہ فتوے جو ہضم نہیں ہو پاتے اچھل اچھل کر باہر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور فتوی کے باہر آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں خود کچھ عمل نہیں کرنا پڑتا سوائے تقریر کے ، فتوی پر عمل کرنا کسی غریب کے بیٹے کے لئے سعادت اور پھر جنت بھی کسی غازی کے نصیب میں آتی ہے ۔

” افتاء سے تعلق رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ احوال کا فتوی پر خاص اثر ہوتا ہے اور تمام تر احوال و تحقیق کئے بغیر طلاق کا فتوی بھی نہیں دیا جاتا ، قتل و کفر کے فتوے تو کجا ”

وقوعہ کے بعد عدالت میں طلبی پر فتوی صادر کرنے والے علماء جنت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کسی غریب سعادت مند سے لاتعلقی کا حلفیہ بیان جمع کرواتے ہوئے بچ نکلتے ہیں اور پھر کسی غازی کی میت پر ٹسوے بہا کر دکان چمکائی جاتی ہے اور بعد ازاں اگلے مجمع کا رخ ، یہ سب تربیت کے نہ ہونے کا ہی اثر ہے ، ذہن میں اچانک بہادر شاہ ظفر کے شعر کی آمد ہوئی ہے کہ :

بات جو کی ہے تو قائم بھی رہو اس پے ظفر
آدمی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب کردار ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونا چاہیے

بہر حال ” میرا آج بھی دعوٰی ہے کہ ملک کے کسی بھی دارالافتاء سے مجھے یہ فتوی تحریری طور پر لا دیا جائے کہ ممتاز قادری کا اقدام درست تھا تو میں اپنی تمام تر تحریر سے رجوع کرتے ہوئے معافی کا طلبگار رہوں گا ”


یہ عوام کو سوچنا ہے کہ خطاب میں بھڑک مارتے ہوئے اور اسی بھڑک کو تحریر میں لاکر دارالافتاء سے جاری کرتے ہوئے آخر کار فرق کیوں ؟؟؟

اس قسم کے واقعات کے سد باب کی خاطر میری تین ( 3 ) گزارشات جو بالترتيب حکومت ، اہل مدارس اور عوام سے ہیں ۔

( 1 ) : حکومت سے گزارش ہے کہ اس قسم کے بڑے مسائل کا ہونا اکثر حساس موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے الفاظ کے غلط چناؤ سے ہوتا ہے لہذا حساس موضوعات پر گفتگو سے ہر شخص کو حتی الامکان روکنے کی کوشش کی جائے اور ملک کے نامور علماء کی ایک کمیٹی قائم کی جائے جو اس قسم کے مسائل کا حل پیش کر سکے ، کمیٹی کے علاوہ تمام اداروں اور اشخاص پر اس طرح کے مسائل سے متعلق گفتگو یا فتوی پر پابندی عائد کی جائے ۔

( 2 ) : اہل مدارس کی خدمت میں عرض ہے کہ خدا را ۔۔۔۔ !!! اختلافات بیان کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ عوام اور مسلمانوں کو یکجا کرنے کی فکر ہو اور علماء و طلباء کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ محبتوں کے امین ہوں نا کہ نفرتوں کے بیج بوئیں ، مشاہدہ ہے کہ پانچویں اور چھٹے درجہ کا طالبعلم بھی مفت کا مفتی اعظم بنا پھرتا ہے اور نامور شخصیات و مخالف مسالک پر کفر کے فتوے صادر کرتا رہتا ہے ، یہ عادت مستقل بنیادوں پر پختہ ہوتی چلی جاتی ہے اور بعد از فراغت یہ مفت کا مفتی معاشرے میں فساد کا سبب بنتا ہے ، اہل مدارس پر لازم ہے کہ متخصصين افتاء اور مفتی میں واضح فرق قائم کریں ، جس طرح فقط ایم بی بی ایس ( MBBS ) کرنے والا بغیر ہاؤس جاب کے ڈاکٹر کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا اسی طرح صرف تخصص کرنے والے کو ” مفتی ” کا لقب نہ دیا جائے اور نہ ہی متخصص کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ خود ساختہ مفتی کہلاتا پھرے البتہ ایک کثیر تحقیق و تجربہ اور صحبت کے بعد جو بھی حقدار ہو اسے مفتی کہنے میں حرج نہیں ۔

( 3 ): عوام کی خدمت میں ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ جوش و جذبہ پر اللہ تعالی اجر دینے والا ہے لیکن جوش کے تابع ہو کر ہوش نہ کھویا جائے بلکہ اللہ کی دی ہوئی نعمت عقل کو استعمال میں لائیں اور اپنے اذہان کو وسعت دے کر خود بھی سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں ، کسی اندھے کی مانند اپنا ہاتھ کسی ہاتھ میں دے کر اندھا اعتماد کرنے سے گریز برتیں ، دین کا علم حاصل کر کے اس کے تقاضے سمجھنے کی سعی کریں ، آپس کی کدورتوں اور مسلکی اختلافات کو ختم کر کے محبت کے بیج بوئیں ۔


ہم نہ سہی تو ضرور بالضرور ہماری نسلیں پھل پائیں گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے