بیرون ملک کام کرنے والے محنت کشوں کی رقوم پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اور معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان محنت کشوں کی بڑی تعداد مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں میں انتہائی تلخ حالات میں اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہے۔ ان رجعتی جابرانہ ریاستوں کی جی حضوری کرنے والی پاکستان کی کرپٹ سیاسی اشرافیہ کو وہاں کام کرنے والے محنت کشوں کے حالات زندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ملک میں کوئی معاشی، سیاسی یا سماجی استحکام لانے سے قاصر سے یہ حکمران طبقہ خود اپنی دولت اور جائیداد ان مصنوعی ریاستوں میں منتقل کر رہا ہے جنہیں خطے کی تیل کی دولت لوٹنے کے لئے سامراج نے تخلیق کر کے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کے سپرد کیا تھا۔
انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سہارن برو کے مطابق ان ممالک میں مزدوری کرنے والے محنت کش ’’21ویں صدی کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں…یہ ہولناک ہے…زیادہ تر کمپنیاں اپنے مزدوروں کو ڈربہ نما کمروں میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کام کے دوران حادثات اور اموات عام ہیں…‘‘
اپنے ملک میں بدترین غربت ان محنت کشوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لئے ان حالات میں بیرون ملک محنت مزدوری کریں۔ اپنے ممالک میں واپسی یا ڈیپورٹ کر دئیے جانے کی صورت میں ان کا کوئی مستقبل نہیں رہتا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے مصنوعی طور پر روپے کی قدر میں اضافہ کر رکھا ہے تاکہ یہاں سے لوٹی گئی دولت زیادہ سے زیادہ ڈالروں میں تبدیل کر کے بیرون ملک منتقل کر سکیں۔ اس مالیاتی فراڈ کا سب سے زیادہ نقصان بھی بیرون ملک کام کرنے والے محنت کشوں کو ہورہا ہے جن کی وطن بھیجی گئی رقوم کی قدر روپے میں کم ہوجاتی ہے۔ کشمیر سے لے بلوچستان اور پنجاب سے پختونخواہ تک لاکھوں خاندانوں کی زندگی اس ترسیل زر پر منحصر ہے۔
پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں کی معاشی زندگی کا دارومدار اسی ترسیل زر پر ہے۔ بگڑتے ہوئے معاشی حالات میں اپنے گھروں کے چولہے گرم رکھنا بیرون ملک کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ خلیجی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والی ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استحصال میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ ان حالات میں ڈیپورٹیشن ان محنت کشوں کے لئے سزائے موت سے کم نہیں ہے۔
سیون سٹارہوٹلوں، عیاشی اور کارپوریٹ زرق برق سے لبریز متحدہ عرب امارات کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں یہاں کی صرف 20 فیصد آبادی کو شہریت کے حقوق حاصل ہیں۔ شہریت حاصل کرنے کے لئے امارات کے مقامی باشندوں کے ساتھ خون کا رشتہ ثابت کرنا بنیادی شرط ہے۔ یہاں رائج نام نہاد ’’نظام خلافہ‘‘ کے تحت غیر ملکی محنت کشوں کی قانونی حیثیت روزگار فراہم کرنے والے مالک کے تابع ہے۔ یہ محنت کش کمپنی کی مرضی کے بغیر نوکری تبدیل نہیں کر سکتے۔
رائٹرز کے مطابق ’’یہ جدید طرز کی غلامی ہے۔ امارات کے ایک شہری اور بلیو کالر غیر ملکی ملازم کی اجرت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات کی رجعتی شاہی ریاست غیر ملکی محنت کشوں کی بھرتیوں اور استحصال میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو خوب آڑ فراہم کرتی ہے۔ دوسری خلیجی ریاستوں کی طرح یہاں بھی ’’نظام خلافہ‘‘ کے تحت نجی کمپنیوں کی منشا سے جاری کیا گیا ’’ورک ویزا‘‘ فرد کے قانونی رتبے کا تعین کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی عام ہے کیونکہ مالکان جب چاہیں ملازمین کو ڈیپورٹ کر سکتے ہیں۔ کام کے بدترین حالات کے باوجود بھی غیر ملکی محنت کش ہڑتال یا احتجاج نہیں کرسکتے ہیں۔ ٹریڈ یونین، ہڑتال یا احتجاجی مظاہرے متحدہ عرب امارات میں قانونی طور پر جرم ہیں اور صحافت سخت ریاستی جکڑ میں ہے۔ ریاست کے لیبر قوانین مالکان کے حق میں مرتب کئے گئے ہیں۔
سرمایہ کاری اور سیر و سیاحت کے لئے جس شہر کو مثالی قرار دیا جاتا ہے وہاں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا ریاست کے نزدیک’’سکیورٹی رسک‘‘ ہے۔
جبر و استحصال کی اس انتہا میں بھی پچھلے چھ ماہ میں دوسری بار دبئی میں محنت کشوں نے ہڑتال کی ہے۔ منگل 10 مارچ کو عریبین کنسٹرکشن کمپنی کی ’’فارچون ویوز‘‘ کنسٹرکشن سائٹ کے سینکڑوں مزدوروں ہڑتال پر چلے گئے۔ خوفناک جبر اور بلیک میلنگ کے باوجود بھی مالکان استحصال کی بڑھتی ہوئی شدت کے خلاف اس بغاوت کو نہیں دبا سکے۔ ہڑتال کی فوری وجہ اجرتوں میں حالیہ کمی اور کمپنی کی طرف سے دی جانے والی کم تر معیار کی خوراک تھی۔ 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر مشقت کرنے والے ان محنت کشوں سے 200 ڈالر ماہانہ پر کام لیا جارہا تھا۔ ہڑتال پر جانے والے مزدور اجرت میں 100 ڈالر اضافے کا مطالبہ کررہے تھے۔
سید خالد نامی مزدور نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم ایک کمرے میں پانچ لوگ رہتے ہیں۔ 50 لوگوں کو صرف ایک باتھ روم میسر ہے۔ یہ کمپنی بہت ظالم ہے۔ ہڑتال کرنے کا خیال بالکل درست تھا۔ زیادہ تر محنت کش قرضے کے بوجھ تلے دب کر دبئی آتے ہیں۔ یہ قرضہ بھی ویزہ فیس اور ایجنٹوں کی جیب بھرنے کے لئے لینا پڑتا ہے۔ ‘‘ یاد رہے یہ کمپنی دنیا کی بلند ترین عمارت ’’برج خلیفہ ‘‘ کی تعمیر کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہے۔
تمام خلیجی ممالک میں احتجاج کرنا جرم ہے لہٰذا پلے کارڈ اٹھانے کی بجائے ہڑتال کرنے والے محنت کش اپنے تنگ و تاریک رہائشی کمروں تک محدود رہے اور کام پر نہیں آئے۔ ہڑتال کا خاتمہ ریاستی جبر کے ذریعے کیا گیا کیونکہ کمپنی نے محنت کشوں کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔ قومی امکان ہے کہ ہڑتال میں حصہ لینے والے تین ہزار محنت کشوں میں سے سینکڑوں کو اس ملک سے نکال دیا جائے گا جسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کے گہرے بحران سے بچنے کے لئے متحدہ عرب امارات کے حکمران کینشین پالیسیاں اپنا رہے ہیں اور ریاستی سرمایہ کاری کے تحت بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ حکومت 32.7 ارب ڈالر کی لاگت سے دبئی میں ائیر پورٹ بنا رہی ہے۔ اسی طرح 2020ء کا ’’ورلڈ ایکسپو‘‘ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو گا جس کے لئے بڑی تعمیرات کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شرح منافع میں اضافے کے لئے محنت کشوں کی اجرت مسلسل کم کی جارہی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد سامراج نے سائیکس پیکٹ ایگریمنٹ اور بیلفور ڈیکلیریشن جیسے معاہدوں کے ذریعے مصنوعی لکیریں کھینچ کر مشرق وسطیٰ کی بندر بانٹ کی تھی تاکہ تیل سمیت خطے کے وسیع معدنی ذخائر کو لوٹا جاسکے۔ یہ ریاستیں اس طرح سے تشکیل دی گئی تھیں کہ زیادہ آبادی والے ممالک میں کم تیل ہو جبکہ زیادہ تیل والے ممالک میں کم آبادی ہو۔ متحدہ عرب امارات بھی ایسی ہی ایک مصنوعی ریاست ہے جہاں جنوبی ایشیا کے لاکھوں مزدور بانڈڈ لیبر جیسے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں ان ممالک پر براجمان سامراج کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے لئے اپنا معاشی اور سیاسی غلبہ قائم رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ حالیہ ہڑتالیں ظاہر کرتی ہیں کہ محنت کش طبقہ بدترین جبرکے خلاف بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کے مزید واقعات جنم لیں گے۔ یہ ہڑتالیں وہ چنگاری ثابت ہو سکتی ہیں جو پورے خلیج کی متعلق العنان بادشاہتوں کا جبر سہنے والے علاقائی اور غیر ملکی محنت کشوں میں بغاوت کی آگ بھڑکا سکتی ہے۔
بشکریہطبقاتی جدو جہد