ننھا یوسف میرے سامنے بیٹھا مجھے کہہ رہا تھا کہ میں نے آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے ( یوسف پانچویں کلاس کا طالبعلم ہے ) ، میں کچھ دیر کے لئے کام روک کر اس کی جانب متوجہ ہوا اور پیار سے اسے دیکھنے لگا ۔
کچھ خاموشی کے بعد یوسف نے حیرانگی بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ آج ” ہولی ” کی وجہ سے میرا اسکول بند ہے ، کلاس 1 سے اب تک کبھی اس وجہ سے چھٹی نہیں ہوئی ، یہ ” ہولی ” کیا ہے ؟ اور اس وجہ سے اسکول کیوں بند ہوا ؟
میں نے اسے سمجھانے اور اپنی جان چھڑانے کے لئے اتنا کہہ دیا کہ ” ہولی ” ایک عید ہے جو ہندو لوگ مناتے ہیں جیسے ہم رمضان کے بعد یا پھر قربانی عید ، یہ سن کر وہ اٹھا اور چل دیا ۔
میں اپنے کام میں مصروف رہا ، تقریبا 2 گھنٹے بعد میں کہیں جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھنے لگا تو مجھے چند بچے کھیلتے دکھائی دئیے جن میں یوسف بھی تھا ، میں کچھ دیر انہیں دیکھنے رک گیا اور ان کا کھیل دیکھنا شروع کیا ، بچے ایک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے اور چند ایک بچوں کے ہاتھ میں رنگیلے قلم تھے جن سے وہ آپس میں چہروں پر قلمکاری میں مصروف تھے ۔
میں یہ پوچھنے کے لئے کہ یہ کونسا کھیل ہے جب بچوں کے قریب ہوا تو میری سماعتوں سے ٹکرانے والی آواز یوسف کی تھی ، وہ بچوں سے کہہ رہا تھا کہ ” آج عید ہے اس لئے سب کو ” ہولی ” والی عید مبارک ہو ” ۔
ننھے یوسف کی آواز اور مبارک باد نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ :
کیا ہمیں غیر محسوس انداز میں ان رواج و رسوم میں شامل نہیں کیا جارہا جو ہمارے ہیں ہی نہیں ؟
کیا ہماری اگلی نسل مذہب سے کچھ واسطہ رکھ پائے گی ؟
کیا ہمارے حکمران ہماری ثقافت و روایات تباہ نہیں کر رہے ؟
کیا ہماری اولاد کو سیکولر اور لبرل بنانے کی کوشش نہیں ہو رہی ؟
کیا ” دو قومی نظریہ ” کی حفاظت اسی طریق پر ممکن ہے ؟
کیا ہندوستان اور پاکستان کا فرق ختم نہیں کیا جا رہا ہے ؟
کیا ۔۔۔۔ ؟ کیا ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ذرا سا آپ بھی سوچئے اگر مناسب لگے اور وقت ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!