ایسے مظاہر میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ ایک طرف لاہور میں معصوم بچوں کے اعضا بکھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اسلام آباد میں اخلاق کی دھجیاں۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ کس کا ماتم مجھ پہ پہلے واجب ہے۔ معصوم جانوںکا یا پھرحرمتِ دین کا؟
ایک صاحب ننگی گالیاں دے رہے ہیں۔ چند روز پہلے اُنہی صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی۔ اپنے ہم مسلک کے لیے گالیوں سے بھر پور۔ طبیعت پھر بھی سیر نہ ہوئی تو بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”ہماری لغت میں وہ گالیاں ہی نہیں جو اسے دی جائیں‘‘۔ گالیوں کا یہ کاروبار ایک ایسی پاکیزہ ہستی کی حرمت کے نام پر جاری ہے، جس کی شائستگی اور حسنِ خُلق کی گواہیاں آسمان سے اترتی ہیں۔ زمین والوں نے شہادت دی کہ آپ ﷺ پردہ نشین کنواری سے زیادہ شرم و حیا والے تھے۔
اﷲکے رسول ﷺ مدینہ میں لوگوں کو کھانے پر مدعو کرتے۔ لوگ کبھی دیر تک بیٹھ جاتے، کبھی وقت سے پہلے آ جاتے۔ اﷲ کے رسول ﷺ کو تکدر ہوتا لیکن شائستگی اور اخلاق کا یہ عالم تھا کہ زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے دل کی کیفیت کو جانتے تھے۔ جبرائیل وحی لے کر اترے اور لوگوں کو خانۂ رسول ﷺ کے آداب کی طرف توجہ دلائی۔ یہ سورہ احزاب ہے۔ دیکھیے، اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں: یہ باتیں نبی کے لیے باعثِ اذیت ہیں لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے اوراﷲ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا‘‘۔( 33:53)
یہ اﷲ کے رسول ﷺ کا اسوہ ہے۔ حسنِ خلق، شائستگی، نفاست۔ واقعہ یہ ہے کہ الفاظ اس حسنِ طبیعت کے بیان سے قاصر ہیں۔ آپؐ نے الہامی ہدایت کا نچوڑ ایک جملے میں سمیٹ دیا: ” لوگوں نے کلامِ نبوت میں سے جو کچھ پایا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر تم میں شرم وحیا نہیں تو تم جو چاہوکرو‘‘۔( بخاری، کتاب الآداب، باب الحیا) نہیں معلوم کہ شیخ الحدیث صاحب نے کتنی بار طلبا کو بخاری کی کتاب الآداب پڑھائی ہو۔ لیکن یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے اپنے حلق سے نہیں اتری۔ حیرت ہے ان مسلمانوں پر، جو یہ سب سنتے ہیں اور پھر اﷲکے رسولﷺ سے وابستگی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
یہ معاملہ ایک فرد تک محدود نہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی میں لوگوں نے جو کچھ سنا، شاید سب نقل کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جنید جمشید کے ساتھ اسلام آباد ایئرپورٹ پر کیا ہوا؟ اخلاقِ پیغمبر سے نسبت تو دور کی بات، عام اخلاق سے بھی کوئی تعلق ثابت ہوتا ہے؟ یو ٹیوب پر ایسی تقاریرکی بھرمار ہے جن میں دوسرے مسالک کے لوگوںکوگالیاں دی جاتی ہیں اور سامعین نعرہ تحسین کے طور پر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔کسی کوخیال نہیں آتا کہ یہ استغفار پڑھنے کا موقع ہے یا نعرہ تکبیر و رسالت بلند کرنے کا۔ المیہ یہ ہے کہ مذہب اور اخلاق میں طلاق واقع ہو چکی، الّا یہ کہ کوئی آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھتا ہو۔ یہ واقعہ ہوچکا اور یہ اچانک نہیں ہوا۔
ہم نے سماج کو مذہب کے نام پر جو کچھ دیا ہے، یہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، ان واقعات میں کوئی بات انہونی یا غیر متوقع نہیں ہے۔ ایک گروہ نے دین کی جو تعبیر پیش کی، اس کا نتیجہ لاہورکا واقعہ ہے۔ دوسرے نے سماج کو جو دین سکھایا، اس کا مظاہرہ اسلام آباد میں دیکھا گیا۔ پہلی دفعہ دین سے محبت کے یہ مظاہرے دیکھے جن کا دین کی تعلیم اور حمیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اسلام آباد کے مظاہرین کی قیادت تو سو فیصد علمائے دین و مشائخِ عظام کے ہاتھ میں ہے۔ وہاں اگر اخلاق کا معاملہ یہ ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سماجی سطح پر مذہبی تعلیم کا اخلاق سے کتنا تعلق باقی رہا ہوگا۔
اور کیا قومی راہنماؤں کو اندازہ ہے کہ یہ دھرنے کا کلچر کہاں سے آیا؟ کیا عمران خان صاحب کو اندازہ ہے کہ انہوں نے جو بیج بویا تھا، اب اس کے برگ وبار آنے لگے ہیں؟ ان کی خدمت میں اس وقت یہ عرض کیا تھا کہ مہذب معاشروں میں یہ اسلوب قابلِ قبول نہیں، آپ جس کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر چند ہزار لوگوں کے اس حق کو تسلیم کر لیا جائے کہ وہ مطالبات کی ایک فہرست مرتب کریں اور ریاست کو مجبور کریںکہ وہ اس کو مانے، تو یہ سلسلہ کہیں تھمنے والا نہیں ہے۔ آج آپ ہیں، کل کوئی اور آجائے گا۔ جس طرح آپ کو اپنے مطالبات کی صداقت پر یقین ہے، ویسا ہی یقین کسی اورکو بھی ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ اس تنقید پر ہمیںگالیوں سے نوازا گیا۔ دو روز سے عمران خان اور طاہر القادری صاحب خاموش ہیں۔کیا انہیں اندازہ ہے کہ آج اسلام آباد میں ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اس کے آغاز کا اعزاز انہیں حاصل ہے؟ اس’ صدقہ جاریہ‘ کا ایصال ِثواب تو انہیں ہوگا۔
ریاست ہمیشہ کی طرح بے بس ہے۔ عوام کے جان و مال اور عزت و آبروکا تحفظ ریاست کے وجود کی پہلی شرط ہے۔ باقی سب باتیں ضمنی ہیں۔ یہ ثابت ہو چکا کہ ریاست اس میں ناکام ہو چکی۔ اہلِ صحافت گواہی دے رہے ہیں کہ آئی بی نے بعض افراد کے نام لے کر اربابِ حکومت کو بتایا کہ وہ اسلام آباد میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے اس تنبیہ کو نظر انداز کیا۔ احتجاجیوں کے جواب میں حکومت کی بے بسی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حکومت کے لیے حکمت اور جرأت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ حکومت کا دامن دونوں سے خالی ہے۔
لاہورکے حادثے کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ یہ دہشت گردی ہے اور اس سے نمٹنے میں وقت لگے گا۔ اسلام آباد کا واقعہ تو حکومت کی نااہلی اور بے تدبیری کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت بلا شرکتِ غیرے اس کی ذمہ دار ہے۔ ہماری ہر حکومت اہلِ مذہب کے خوف میں مبتلا رہی ہے۔ بے بصیرتی کا عالم یہ ہے کہ پہلے وہ فساد پھیلانے کی ہر حرکت کو گوارا کرتی ہیں۔ کتابیں چھپتی رہتی ہیں۔ جلسوں میں اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔ سب ہوتا ہے اور حکومت اس کی اجازت دیتی ہے۔ جب یہ ایک توانا جتھہ بن جاتا ہے تو پھر حکومت اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ عمران خان کے دھرنے کا معاملہ سیاسی تھا۔ اس کے محرکات دوسرے تھے، جو شاید عمران خان کو بھی بعد میں معلوم ہوئے۔ لیکن اب تو ایسا نہیں تھا۔ اس کی ذمہ داری حکومتی نا اہلی کے سوا کسی دوسرے عامل پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
اور آخری بات اپنے احتجاجی دوستوں سے۔ دورِ حاضر میں ان کا یہ امتیاز تھا کہ وہ انتہا پسندی اور تشدد سے دور تھے۔ افسوس کہ انہوں نے اپنا یہ امتیاز کھو دیا۔ آغاز کراچی سے ہوا اور اب یہ سارے ملک میں سرایت کرچکا۔ بریلوی مسلک، مسلمانوں کا سوادِ اعظم ہے۔ دیگر مسا لک میں تشدد کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بریلوی مسلک میں صوفیانہ روایت سے وابستگی مضبوط ہوئی جس میں سب کچھ ہے لیکن تشدد نہیں۔ اب اسلام آباد میں قوم نے جو کچھ دیکھا، اس کے بعد ان کا امتیاز بطورِ گروہ باقی نہیں رہا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کا استثنا ہے۔ خدا کرے کہ یہ باقی رہے ورنہ یہاں کے اہلِ مذہب اسلام کو وہاں پہنچا کر دم لیں گے جہاں یورپ کے اہلِ کلیسا نے مسیحیت کو پہنچایا۔