انسانوں سے جنت کا وجود

وہ کون سی ثقافت ہے جس نے آپ کو اس کی سرزمین کا دورہ کرتے ہوئے، یا اس کے بارے میں مطالعہ کرتے ہوئے، یا پھر اس کے رسم ورواج کے بارے میں تعارف حاصل کرتے ہوئے بہت زیادہ حیران کردیا؟!

یقینا ہم میں سے ہر ایک کی کسی مخصوص ثقافت یا تمدن یا ماحول کے حوالے سے کوئی نہ کوئی یادداشت ضرور ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اپنی طبیعت کے سبب اس زندگی میں اور اس زمین پر، دریافت اور تجسس انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔

ہمارے ایک دوست اس بات پر ممنون اور خوش رہتے ہیں کہ ان کا چھوٹا بھائی ایک ایسے اسکول میں پڑھتا ہے جہاں 14 سے زیادہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ موجود ہیں۔ اس طرح اس کے اندر رواداری اور مختلف لسانی، معاشرتی اور ثقافتی مفادات کے حامل معاشرے کی برداشت پیدا ہورہی ہے اور وہ چھوٹی عمر سے ہی انسانوں کی جدا گانہ حیثیت، عرف، رسم و رواج اور زبانوں سے مانوس ہورہا ہے۔ اس طرح وحشت، اکیلے پن، میلان ِ خلفی، قید، اور عموما بچپن سے گھٹی میں ڈالے گئے اس نظریے کا بیج نہیں بویا جاتا کہ ہم جس احاطے (خول) میں زندگی گزار رہے ہیں وہ ہی اکلوتا اور مطلق راست ہے۔

خلیفہ مامون الرشید کے دور میں (دیگر) ثقافتوں کے ساتھ میل جول عرب اور اسلامی ثقافت کی تشکیل کا ایک حصہ تھا۔ ہماری اسلامی تاریخ کے پہلے عرب فلسفی ابو یعقوب بن اسحاق الکندی ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ « حق جہاں سے بھی آئے ہم اس کی پسندیدگی میں شرمائیں نہیں، اگرچہ وہ ہم سے بعید نسلوں اور ہماری مخالف اقوام سے ہی کیوں نہ آیا ہو، پس ایک طالب حق کے لیے حق سے زیادہ کوئی اولین چیز نہیں، پس حق کو بے وقعت نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کے کہنے والے کی حیثیت کو کم کرنا چاہیے، حق نے کبھی کسی کو بے وقعت نہیں کیا بلکہ حق تو ہر کسی عزت بخشتا ہے»

انسان جو بھی حقائق اور فراستیں وجود میں لاتا ہے وہ سب کی ملکیت ہوتے ہیں، وجود میں لانے والی ذات کسی طور وجود میں آنے والے علم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

” ہم اکیلے زندگی نہیں گزار سکتے۔ دوسروں کو قبول کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنا، باہمی بقاء کے اہم ترین عناصر ہیں” ۔

اسی واسطے پرانوں نے کہا ہے کہ ” انسانوں کے بنا جنت (بھی) … آباد نہیں ہو سکتی !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے