منظم معاشرے کیسے بنتے ہیں؟ جرمنی سے خاص تحریر

ہماری یونیورسٹی کے مین کیمپس میں طلبہ کے لئے ایک کئی منزلہ کیفےٹیریا ہے جو یہاں "مینزا” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یہ جرمنی کی تقریبا ہر یونیورسٹی میں اسی نام سے موجود ہے۔ مینزا کے قیام کا مقصد طلبہ کو سستا، صاف ستھرا اور معیاری کھانا صاف ستھرے ماحول میں فراہم کرنا ہے جو وہ دن میں دو بار، دوپہر اور شام کو، فراہم کرتا ہے اور ہر روز سینکڑوں طلبہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

طریقہ کار یہ ہے کہ طلبہ مین دروازے سے داخل ہوتے ہیں، اپنی ضرورت کے برتن ایک ٹرے میں رکھتے ہیں، مختلف الانواع کے کھانوں اور مشروبات میں سے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کھانا اور مشروب چنتے ہیں اور بڑے ہی منظم انداز میں، یونیورسٹی کارڈ کے ذریعے، ادائیگی کرتے ہوئے، کیش کاؤنٹر کے دوسری طرف موجود ایک وسیع ہال میں داخل ہو جاتے ہیں جس میں بہترین قسم کی میز اور کرسیاں بڑے سلیقے سے سجی ہوئی ہیں۔ پورے ہال میں نہ تو کوئی سیکورٹی گارڈ ہے، نہ کوئی بیرا کھڑا ہوتا ہے اور ناں ہی کسی بھی طرح کا کوئی بھی ہدایت نامہ کسی دیوار یا میز پر رکھا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی پورے ہال میں ناں تو کبھی برتن بکھرتے ہیں، ناں کبھی کھانا فرش یا کسی میز پر گرا ہوا نظر آتا ہے اور ناں ہی کسی بھی طرح کی کوئی ہلڑ بازی دیکھنے کو ملتی ہے۔ طلبہ بڑے اطمینان سے اپنا کھانا ختم کرتے ہیں، اگر غلطی سے کبھی کچھ میز، کرسی یا پھر فرش پر گر بھی جائے تو اسے اچھی طرح صاف کرتے ہیں اور استعمال شدہ برتن ان کے لئے مختص کی گئی جگہ پر رکھتے ہوئے اطمینان سے باہر چلے جاتے ہیں۔

کچھ من چلے کھانے کے ساتھ موسم کا لطف لینے کے لئے ہال سے باہر آ جاتے ہیں اور سلیقے سے لگی کرسیوں یا پھر قریب کے ایک سرسبز و شاداب میدان میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ سب بھی اپنا کھانا اور گپ شپ دونوں سے فارغ ہو کر برتن سمیٹتے ہیں اور واپس ہال میں آ کر برتن ان کی مخصوص جگہ پر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔

میں پچھلے دو سال سے یہ سب دیکھ رہا ہوں۔ بہت کوشش کی کہ کہیں بکھرے ہوئے برتن، گرا ہوا کھانا یا استعمال شدہ ٹشو ہی نظر آ جائیں۔ کیونکہ میں بہرحال ایک پاکستانی ہوں اور ایسی جگہوں پر عموما ابتری، گندگی اور مکھیاں دیکھنے کا عادی ہوں۔ اسی لیئے آنکھیں ہردم متلاشی رہتی ہیں کہ شاید کہیں کوئی ہلکی پھلکی مماثلت ہی نظر آ جائے۔ لیکن ابھی تک تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جو ان سے یہ سب کروا رہی ہے؟ وہ کونسی قوت ہے جو ان کو اس پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی استعمال شدہ ہر چیز سمیٹ کر مخصوص جگہ پر رکھیں؟

عام طور پر انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ یا تو خوف اور ڈر کی وجہ سے کچھ کرتا ہے اور یا پھر لالچ کی وجہ سے۔ خوف مختلف چیزوں کا اور مختلف چیزوں سے ہو سکتا ہے جیسے کہ سزا کا خوف، بےعزتی کا خوف فیل ہونے کا خوف، کسی بڑے یا قانون کا خوف بھی ہو سکتا ہے اور اسی طرح لالچ بھی کئی طرح کا ہوتا ہے جیسے کہ کامیابی کا لالچ، تعریف کا لالچ، کچھ بننے یا ملنے کا لالچ اور اچھی زندگی کا لالچ۔ اللہ تبارک و تعالی نے بھی جب ابن آدم کو احکامات دینے شروع کیئے تو ان کی بنیاد میں بھی یہی دو عنصر کارفرما تھے۔ یعنی جہنم کا خوف اور جنت کا لالچ۔ سب سے پہلے توحید کا حکم ملا اور تابعداری کی صورت میں جنت اور نافرمانی کی صورت میں جہنم کا وعدہ کیا گیا۔ عبادات کا حکم آیا تو ایک بار پھر جنت اور دوزخ کا تذکرہ ہوا۔ اخلاق کی تعلیم دی گئی تو دنیاوی جزا و سزا کے ساتھ ساتھ آسمانی جزا و سزا کا اعلان بھی کیا گیا۔ غرض کہ جب بھی کوئی حکم اتارا گیا اسے ایک منطقی انجام کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔

لیکن اس معاملے میں نہ تو مجھے ڈر یا خوف کا کوئی پہلو نظر آتا ہے کہ اس سارے عمل میں نہ تو کہیں کسی نگران، چوکیدار یا سیکورٹی گارڈ کا وجود ہے، جو کسی پر نظر رکھے ہوئے ہو، اور ناں ہی کہیں لالچ کا کوئی عنصر کارفرما ملتا ہے کہ کوئی بھی کبھی بھی اس عمل پر ان کی پیٹھ تھپتھپا کر شاباش نہیں دیتا، جس کا ہمیں ہر وقت انتظار رہتا ہے، اور ہر وہ کام، جو ہماری ذمہ داری تھی، پورا کرنے کے بعد ہم یہ توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ اب کوئی آئے اور ہماری پیٹھ تھپتھپا کر کہے کہ تم نے تو گویا کارنامہ انجام دیا ہے۔

اس حقیقت سے قطع نظر کہ ذمہ داری کو پورا کرنا کبھی بھی کارنامہ نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ تو آپ کا فرض تھا جو آپ نےادا کر دیا اور فرض کی ادائیگی پر شکر ادا کیا جاتا ہے نہ کہ شاباش کی توقع رکھی جائے۔ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ کونسی سی قوت ہے جو یہاں کے طلبہ کو تہذیب کا درس دیتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہاں طلبہ مینزا کی میز اور کرسیوں پر اپنی محبت اور چاہت کی داستانیں رقم نہیں کرتے؟ وہ کیا چیز ہے جو ان کو کلاس روم کی میزوں پر اپنی خوشخطی کے مظاہرے کرنے سے روکتی ہے؟ وہ کونسی ایسی طاقت ہے جو ان کو لائبریری کی میز اور کرسیوں پر اپنے ناموں کی مینا کاری نہیں کرنے دیتی؟ کیا یہاں کے طلبہ باتھ روم میں جانے سے پہلے قلم باہر چھوڑ جاتے ہیں یا ان کو لکھنا نہیں آتا؟ کیا ان کو کسی نے نہیں بتایا کہ ان دیواروں کا ستر پوشی کے علاوہ بھی کچھ استعمال ممکن ہے؟

اگر یونیورسٹی کے ماحول سے تھوڑا باہر نکلیں تو سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے شیشے کیوں نہیں توٹتے؟ یہ لوگ ٹرام، بس اور ٹرین کی سیٹیں کیوں نہیں پھاڑتے؟ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوئے دھکم پیل کیوں نہیں ہوتی؟ لوگ سرخ بتی کا اتنا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ پھرچاہے وہ پیدل ہی کیوں نہ چل رہے ہوں۔ کوئی ڈرائیونگ لائسنس اور سیٹ بیلٹ کے بنا گاڑی کیوں نہیں چلاتا؟ ہر لحظہ پیدل چلنے والے کا احترام کیوں کیا جاتا ہے؟ یہاں خوراک میں ملاوٹ کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ لوگ جعلی دوائیاں بیچ کر منافع کیوں نہیں کماتے؟ یہاں کی پولیس اختیارات کے باوجود پولیس گردی کیوں نہیں کرتی؟ ٹیکس کیوں چوری نہیں کیا جاتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ تقریبا ہر شخص اپنے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس بات کا شعور کس نے دیا ہے کہ کامیاب ہونے کے لیئے بہرحال محنت کرنی پڑے گی اور محنت کا کبھی بھی کسی بھی طرح کا کوئی متبادل نہیں ہوا کرتا۔

جب خوف اور لالچ میں سے کوئی بھی عنصر نظر نہ آئے تو صرف ایک ہی ایسی قوت باقی رہ جاتی ہے جو انسان سے یہ سب کرواتی ہے اور اس کو حقیقت میں انسان ہونے کا شرف بخشتے ہوئے انسانیت کے مقدس مرتبہ پر فائز کرتی ہے اور وہ ہے "اخلاق”۔ یہ اخلاق ہی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو انسان کا تعارف ” حیوان ناطق” یعنی بولنے والے جانور کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی وجہ سے کہا گیا تھا کہ ” وإنك لعلى خلق عظيم” اے پیغمبر آپ کو اخلاق کے اعلی ترین مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اور اخلاق ہمیشہ تربیت کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔

اب تربیت انفرادی اور قومی دونوں سطح پر ہوتی ہے اور تربیت کا معیار روز اول سے آسمانی تعلیمات طے کرتی رہی ہیں۔ جن کو سمجھانے اور عملی مظاہرے کے لئے ذات باری تعالی نے ہمیشہ انسانوں کو نبی اور رسول بنا کر دنیا میں بھیجا کہ وہ حیوان ناطق کی تربیت کریں اور اسکو انسان بنا کر انسانیت کے پاکیزہ اور مقدس مقام پر براجمان ہونے کا موقع فراہم کریں۔ اب چونکہ اسلام دنیا کا آخری، مکمل اور بہترین مذہب ہے تو یقینا اس کی تعلیمات بھی بہترین، جامع اور پائیدار ہیں جو قرآن اور احادیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان "انسان” نہیں ہے؟

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا کے بہترین مذہب کے علمبردار، دنیا کو انسانیت کا عملی درس دیتے اور اپنی فطری ذمہ داری پوری کرتے، لیکن گھر کے بھیدی ہی جب لنکا ڈھانے نکل پڑیں تو انجام وہی ہوتا ہے جس سے ہم دو چار ہیں۔ جو کتاب انسانیت کی رہنماٰئی کے لیئے اتاری گئی تھی اسے پہلے ہم نے برکت کی کتاب بنایا اور پھر مردوں کو بخشوانے کے کام پر لگا دیا اور اپنے تئیں یہ طے کر بیٹھے کہ اسلام تو صرف مسجد کی چار دیواری کے اندر ہی ہوتا ہے اور وہ بھی صرف مولویوں کے لئے۔

جب ہم نے یہ رویہ اختیار کیا تو اللہ نے بھی اپنے انعامات کا رخ پھیر دیا اور نظر التفات کا مرکز وہ بن گئے جو بہرحال ہماری طرح منافق نہیں تھے۔ اللہ نے ان کو توفیق دی اور اس قوم نے اپنی نسلوں کی تربیت شروع کر دی جس کا پھل آج یہ قوم بڑے مزے سے کھا رہی ہے اور مسلمان ایک عظیم مذہب کے علمبردار اور اللہ کے محبوب پیغمبر کے امتی ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ان ملکوں میں آنے اور یہاں آباد ہونے کے لئے ہر حد عبور کرنے کے لیئے تیار ہیں پھر چاہے وہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو بہرحال ہمیں اپنی اور اپنی اولاد سمیت عزیز و اقارب کی تربیت بھی اسلامی اور فطری طریقوں کے مطابق کرنی ہو گی۔ ہمیں سیکھنا ہو گا کہ ہر انسان، پھر چاہے وہ کسی بھی طبقے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا، قابل احترام ہے۔ ہمیں بہرحال قرآن کو ہدایت اور رہنمائی کی کتاب سمجھ کر پڑھنا ہو گا اور اپنی روز مرہ کی زندگی کو فطری تقاضوں، جو کہ عین اسلام بھی ہیں، کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ بنا لائسنس گاڑی چلانا جس طرح ملکی قانون میں جرم ہے بلکل اسی طرح قرآنی تعلیمات بھی اس کو جرم قرار دیتیں ہیں۔ اور اس کا روز قیامت بلکل اسی طرح حساب لیا جائے گا جس طرح دوسری چیزوں کا لیا جائے گا۔

حتی کہ اگر کوئی بنا سیٹ بیلٹ کے یا مقررہ رفتار سے، شعوری طور پر اور بنا کسی مجبوری کے، زیادہ تیز چلاتا ہے تو وہ دنیا میں تو شاید بچ جائے لیکن اللہ کی عدالت میں اس کی پکڑ ضرور ہو گی۔ اگر اب بھی ہمیں یہ سمجھ نہ آیا کہ قرآن صرف ہمارے مردے بخشوانے کے لیئے نہیں اتارا گیا تو یقین کیجیئے وہ دن دور نہیں جب آنے والی نسلیں ہمارے ہی جوتوں سے ہمارے ہی سروں کو عزت بخش رہی ہوں گیں۔

حیرت ہے کہ مغربی دنیا، جس کی اکثريت کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی سروکار ہی نہیں بلکہ بہت سارے تو خدا پر ہی یقین نہیں رکھتے، تو اس بات پر کامل یقین رکھتی ہے کہ انسان کی معراج انسانیت میں پوشیدہ ہے۔ اور اسی لئے یہاں کے قانون میں ہر انسان، قطع نظر اس کی ذاتی حیثيت کے، قابل احترام اور صاحب قوقیر ہے۔ لیکن مسلمان، جس کو باقاعدہ اس سب کی تعلیم دی گئی ہے، عملی میدان میں اس بات پر رتی برابر بھی یقین نہیں رکھتا اور جہاں جس کو جتنا موقع ملتا ہے وہ دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔

یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتی اس کا حال کبھی نہیں سنورتا اور جس قوم کا حال نہیں سنورتا اسکا مستقبل کسی بھی طور بہتر نہیں ہو سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے