بکروں کی فریاد . . .گو نواز گو

کل بہت ہی عجیب سا خواب دیکھا، ایک لمبی سے داڑھی والا کالا بکرا میرے خواب میں آیا اور زار و قطاررونے لگا، میں خواب ہی خواب میں پریشان بھی ہو گیا۔۔ بھائی روتے کیوں ہو؟ میں نے پوچھا

کیا بتائیں جناب، ہماری زندگی عذاب کر کے رکھ دی ہے، سارے ملک کے بکرے چھپتے پھر رہے ہیں، پہلے صرف کالے بکرے خوفزدہ تھے، اب تو رنگ و نسل اور حسب و نسب کی بھی تفریق مٹ گئی ہے۔ دوندا ، کھیرا یا بڈھا بکرا ۔۔ بس اب بکرا ہونا چاہئے، صاحب لوگوں نے تو حد ہی کر دی۔بکرا منمنایا

جناب بکرا صاحب، ہوا کیا ہے؟ کون آپ کے پیچھے پڑا ہے؟ کن سے خوفزدہ ہیں آپ لوگ؟ کیا آپ کا تعلق کراچی سے ہے؟ایسے خوفزدہ تو کراچی کے عوام ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے پوچھا

نہیں جی۔۔ سب سے زیادہ متاثر ہم پنجابی بکرے ہو ئے ہیں ان پنجاب کے دہشت گردوں سے۔۔ یہ تو کراچی کے بھتہ خوروں سے بھی زیادہ ظالم ہیں۔ یعنی بکرے نہ ہوئے مچھر یا مکھی ہو گئے۔۔ جس کا دل کرتا ہے ہماری گردن پکڑ لیتا ہے۔۔ کوئی ظلم سے ظلم ہے۔۔ کوئی چیف جسٹس بھی ایسا نہیں رہا جو اس دہشت گردی کا از خود نوٹس لے۔۔ اللہ بخشے ہمارے چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب جب سے ریٹائر ہوئے ہیں، از خود نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا اپنے جج صاحبان نے ، میرے خیال میں تو ایک ہی شخصیت ہے جو یہ ظلم بند کرا سکتی ہے۔۔ مجھے ذرااپنے آرمی چیف کا نمبر ہی دے دیں، بکرے نے جگالیانہ انداز میں کہا۔۔

سوری، میرے پاس آرمی چیف کا نمبر تو نہیں ہے۔ ہاں اپنا مسئلہ بتاؤ تو پتا چلے معاملہ کیا ہے، پھر اگر میرے بس میں ہوا تو حل کروانے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔میں نے صحافیانہ انداز میں کہا

جناب ۔۔ آپ ہی کے بس میں تو ہے، اگر آپ کسی طرح ہم سب بکرا جات کی جانب سے ایک اپیل اخبار میں شائع کرا دیں تو میں بے حد مشکور ہوں گا اور تا دم ذبح آپ کو دعائیں دیتا رہوں گا، میرے چالیس سے زائد بچے اور دس بکریاں آپ کے ممنون رہیں گے، خیر ممنون کا نام تو چھوڑ دیں، اس ایک شخص نے جتنی ممنونیت کا مظاہرہ کیا ہے اب کوئی اس مقام ممنونیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ بکرے نے کہا

بھئی تم تو سیاسی قسم کے بکرے معلوم پڑتے ہو۔۔ تمہارا سیاست سے کیا تعلق؟ میں نے پوچھا تو بکرے نے جگالی کرتے کرتے ایک نہایت ہی بے ہودہ سی گالی دی اور بولا۔۔ یہی سوال تو ہم سب بکرے کر رہے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کیا تعلق؟ کیوں ہمیں سیاست میں گھسیٹ رہے ہو؟ ہم بے چارے بے زبان ہیں ، بے زبان ہی رہنے دو، ہمیں بد زبان بننے پہ مجبور نہ کرو۔۔ اگر ہم نے احتجاج شروع کر دیا تو ہم گالیاں بھی بکیں گے اور ٹکریں بھی ماریں گے، ہم پہ آنسو گیس کا اثر بھی نہیں ہوتا ۔ ہاں ، البتہ چھری سے ڈر لگتا ہے صاحب۔

یار تم میرا خواب لمبا کر رہے ہو۔ جلدی جلدی بتاؤتمہارا کیا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی قصابوں سے متعلق معاملہ ہے تو جمعیت القریش کے خورشید قریشی صاحب اپنے دوست ہیں، ان سے کہہ کر تمہارا مسئلہ حل کروا دیتا ہوں۔ میں نے غصے میں کہا

جناب قصابوں سے کیا مسئلہ ہوگا، ان کے ساتھ تو ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے، ان کے ساتھ تو آپ لوگوں کو مسئلہ ہونا چاہئے کہ ہمارے ساتھ ساتھ وہ آپ کو بھی حلا ل کرتے ہیں۔ بکرا بولا۔۔ پھر دائیں بائیں دیکھ کر رازداری سے بولا ۔۔ سر ہماری جان ان سیاستدانوں سے چھڑوا دیں۔۔آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔

بھئی تمہارا سیاستدانوں نے کیا بگاڑا ہے؟ میں نے پوچھا تو بکرا پہلے ہنسا، پھر اس نے کہا۔۔ پہلا قصور چوہدری تنویر کا ہے۔۔ انہوں نے تو خلوص نیت کے ساتھ اپنے لیڈر کے لیے چوبیس بکروں کا صدقہ کیا تھا، بس پھر کیا تھا ہر لیگی سیاستدان کو یوں لگا جیسے کوئی بکرے صدقہ کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے یعنی جو جتنے زیادہ بکرے ذبح کرے گا اتنا بڑا لیڈر بنے گا۔۔ ڈاکٹر طارق فضل، ملک ابرار کے بعد ہر یونین کونسل کے چیئرمین سمیت ہر شخص نے یہ مقابلہ شروع کر دیا۔۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کیا تمہارے لیڈر کی حالت کے ذمہ دار ہم ہیں؟ ہمارا کیا قصور ہے؟

بکرا ایک ہو یا چالیس، چھیاسٹھ کیا فرق پڑتا ہے؟ صدقہ صدق دل سے کیا جائے تو رب ایک کالی مرغی کیا، پانچ دس روپے کا صدقہ بھی قبول کر لیتا ہے، یہ دولت کی نمائش جہاں عید قربان پہ کرتے ہیں وہیں سب صدقہ کرتے ہوئے بھی یہی نمائش کرتے ہیں۔۔ عید پر بھی ایک دو اونٹ، دو چار ویہڑے اور پچاس پچاس ہزار روپے والے چار پانچ بکرے قربان کرنے کے بعد بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ہاں کوئی غریب مانگنے والا آ جائے تو اس کی شامت آ جائے گی، ہٹے کٹے ہو کام کیوں نہیں کرتے؟ لیکن اپنے لیڈرز کو خوش کرنا ہو تو یہ سو سو بکرے بھی قربان کر دیں گے مگر ٹیکس کتنا دیتے ہیں پانچ ہزار روپے۔۔

ان سے اچھے تو پیپلز پارٹی والے تھے ایک لیڈر کسی بکرے کوکو گھیر گھار کے لاتا تھاپھر سارے اس بکرے کے ساتھ تصویر کھنچوا لیتے تھے یعنی لیڈر بھی خوش کہ میرے کارکن میرے لیے اچھے جذبات رکھتے ہیں، بکرا بھی ایک ہی ہوتا تھا جسے شام کو فارم ہاؤس پر ہونے والی پارٹی میں استعمال بھی کر لیا جاتا تھا۔صبر شکر بھی کر لیتے تھے۔ یہاں تو کام رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

چلو ۔۔ چوہدری تنویر تک تو ٹھیک ہے وہ تو حقیقی رئیس ہیں اور پر خلوص بھی مگر اب کئی قبضہ گروپوں نے بھی یہ کام شروع کر دیا۔ اپنی یونین کونسل کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین ، کونسلر اور لیبر کونسلر حضرات سب کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جہاں بکرا نظر آئے اسے پکڑ کر لے آؤ۔۔ یہ سب بھی اسی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔۔۔اور یہ مقابلہ غالباً یا تو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میاں صاحب وطن واپس نہیں آتے یا پھر ہماری نسل کے ناپید ہونے تک۔۔ اور ہمیں خدشہ ہے کہ میاں صاحب کو آنے میں تھوڑی سی بھی تاخیر ہو گئی تو شاید ہماری نسل ہی مٹ جائے۔۔ اب تو ہمارا ہر بکرا نعرہ لگانے لگا ہے ۔۔۔ گو نواز گو۔۔ گو نواز گو۔۔

تمہاری بھی عقل ماری گئی ہے بکرے، تم نعرہ مارو کم نواز کم، کم نواز کم۔۔۔ تاکہ نواز شریف صاحب جلد واپس آ جائیں۔۔ تم بھی بالکل پاگل ہو۔۔ میں نے کہا تو بکرا غصے میں آ گیا اور قریب تھا کہ مجھے ٹکر مارتا کہ میری آنکھ کھل گئی۔۔ قریب ہی بیگم کھڑی مجھے حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔۔ کیا ہوا کیوں گھبرائے ہوئے ہیں۔۔ اس نے پوچھا
کچھ نہیں۔۔ تم بتاؤ کیا ہوا۔۔۔ میں نے پوچھا تو بیگم بولی، مہمان آنے والے ہیں ذرا بازار سے مٹن تو لا دیں۔۔
نہیں۔۔ میں نے خوفزدہ لہجے میں کہا، بہتر ہے آپ چکن ہی پکا لیں، آج کل بکروں کی حالت کچھ اچھی نہیں۔۔۔ اچانک مجھے بکرے کی ٹکر کا خیال آگیا۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے