خیرات اور انسانی مسائل

[pullquote]ہم مارکس والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ معاملات کو مجموعی طور پر دیکھتے ہیں، اور معاملے کا ہر سمت سے تجزیہ کرنے کے بعد ہی حتمی رائے اور فیصلہ دیتے ہیں. ہم اُن مسائل کی بات کرتے ہیں جو ایک لمبے عرصے سے انسانیت کو درپیش ہیں. ہم درمیانی راہ یا مصلحت پسندی کے حق میں نہیں ہیں. ہم لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کی ڈور کسی ایک کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے، اور نہ ہی اربوں، کھربوں کسی ایک کی جیب میں ڈال سکتے. ہم ایک ایسے نظام کی بات کرتے ہیں جہاں کسی کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں اور حقوق کی وصولی میں کوئی امر مانع نہ ہو. فرائض اور حقوق کی تعریف بھی مختلف ہوتی ہے. خیر یہ تحریر کا مقصد نہیں ہے.[/pullquote]

مسئلہ بھوک ہے، بےگھری ہے، جہالت ہے، بیماریاں ہیں، علاج و ادویات کی عدم دستیابی ہے، تعلیم کی کمی و عدم دستیابی ہے. اِن حالات میں کچھ لوگوں کی دولت پوری دنیا کی مجموعی دولت سے زائد ہے. موقر اعداد و شمار مثلاً آکسفیم کے مطابق ایک فیصد آبادی کی دولت پوری دنیا کی دولت سے زیادہ ہے. ایسے میں امیروں کی خیرات، صدقات اور امداد پہ تین سوالات پیدا ہوتے ہیں:

1. کیا خیرات دینے والوں کی نیت اچھی ہوتی ہے یا کالے دھن کو محفوظ کرنے کا ایک معزز طریقہ؟
2. اگر خیرات دینے والی کی نیت بالکل صاف اور انسان دوستی ہی ہے تب بھی یہ سوال سنجیدہ ہے کہ کیا خیرات انسانی مسائل کا مکمل اور دیرپا حل ہے؟
3. خیرات و امداد لینے والوں کی عزتِ نفس اور تعمیری نفسیات کا قتل کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟

عموماً خیراتی کام اور اداروں کی قوتِ محرکہ بدنیتی پہ مبنی ہوتی ہے. اپنے کالے دھن کو ایک انسان دوست معزز لبادہ مہیا کرنا خیراتی اداروں کا پسِ جواز ہوتا ہے. یہ بات چند ایک خیراتی اداروں پہ لاگو نہیں ہوتی، بلکہ اکثر خیراتی اداروں کے پسِ پشت بہت گھناؤنے جرائم ہوتے ہیں. اِن جرائم پہ شرافت اور انسان دوستی کا ٹھپہ لگانے کیلیے خیراتی ادارے بنائے جاتے ہیں. ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلانا اور ہسپتالوں میں چکر لگا کر خوراک مہیا کرنا ایک روایتی خیرات ہے، کیونکہ جلدی اور سستی شہرت حاصل کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے. بڑے بڑے بزنس مین جو کروڑوں کی ٹیکس چوری، ملازمین کے استحصال، دو نمبری، ملاوٹ، قرضہ معافی، بلیک میلنگ اور سمگلنگ میں ملوث ہوتے ہیں وہی خیرات بھی کر رہے ہوتے ہیں. بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات جو لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے، کروانے اور جعلی قاتلانہ فسادات کے دھندوں میں ملوث ہوتی ہیں بھی رفاہی ادارے چلاتی ہیں. ہزاروں لاکھوں لوگوں کو نجکاری کے تحت بےروزگار کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رفاہی ادارے جعلی شہرت اور انسان دوستی کے جھوٹے لبادے کے علاوہ کونسا مقصد رکھتے ہیں.

[pullquote]عجیب بات ہے کہ ملک کی مشہور مذہبی سیاسی پارٹی ایک طرف پاکستانی غیرتربیت یافتہ نوجوانوں کو افغانستان اور کشمیر میں باقاعدہ افواج کے مقابلے کیلیے "جہاد” پہ مرنے کیلیے بھیجتی ہے، دوسری طرف وہی پارٹی لوگوں کو مفت ادویات مہیا کرتی ہے. یہ کیسی انسان دوست تنظیم ہے؟ اُس پارٹی کے اعلٰی عہدے داران کے اپنے بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ایم این اے، ایم پی اے بنتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، ڈاکٹر بن کر ماہانہ لاکھوں کماتے ہیں یا اِن جیسے دوسرے گھٹیا دنیاوی کام کرتے ہیں… مگر عوام کے بچوں کو جہاد جیسے عظیم کام کی ترغیب دیتے ہیں. ایسی جماعت جو ملک میں آمریت کی ساتھی رہی ہو، ہزاروں بچوں کو جہاد کے زریعے مرواتی رہی ہو، اگر عوامی خدمات کا دھندہ شروع کر دے تو خیراتی اداروں کا جواز محض اپنے دامن کے داغ دھونا ہی ہوتا ہے.[/pullquote]

لیکن کچھ استثناء بھی ہوتی ہیں. کچھ لوگ اور ادارے واقعی انسان دوستی کے جذبے کے تحت چلتے ہیں. دنیا میں مدر ٹریسا کا نام اس ضمن میں مشہور ہے. اسی طرح پاکستان میں عبدالستار ایدھی کا نام لیا جا سکتا ہے. یقیناً یہ لوگ اور انکے ادارے انسان دوست ہیں. ایسے لوگوں اور ادارے اپنے اردگرد دکھی انسانیت کے دکھ کو اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں. یہ لوگ دوسروں کی تکالیف کو اپنی تکلیف بنا لیتے ہیں. بس پھر کیا؟ لوگوں کی خدمت میں جُت جاتے ہیں. کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا یہودی، کیا عیسائی، بس اُنکو دکھ دکھائی دیتے ہیں. وہ اپنے اوپر خرچ ہی بہت کم کرتے ہیں. وہ اپنی نجی زندگیاں ختم کرکے دوسرے لوگوں کی داد رسی میں گم ہوجاتے ہیں. یہ لوگ قابلِ تعریف ہیں، عظیم ہیں اور انسان دوست ہیں. اِنکو سلام، انکی عظمت کو سلام.

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ لوگ بے گھر ہیں. اسی طرح اقوام متحدہ کی 2008 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آدھی آبادی خوراک کے حوالے سے غیرمحفوظ ہے. پاکستان نیشنل نیوٹریش سروے کے مطابق 58 فیصد آبادی خوراک کے معاملے میں غیرمحفوظ ہے اور 24 فیصد پاکستانی بچوں کی نشوونما شدید حد تک متاثر ہے. اِن حالات میں ایدھی فاونڈیشن جیسے کتنے ادارے سکھ مہیا کر سکتے ہیں؟ کتنے فلاحی و رفاہی ادارے جن کا مقصد کچھ بھی ہو کتنے لوگوں کو کب تک سکھ مہیا کریں گے؟ ابھی تو فقط بےگھری اور بھوک کا معاملہ بحث میں لایا گیا ہے. بیماریاں، علاج معالجے کی ابتر حالت، ادویات کی کمی، تعلیم کے معاملات اور دیگر انسان دشمن معاملات تو بحث میں شامل ہی نہیں کیے گئے. پس انسانوں کے مسائل کا حل خیرات اور امداد نہیں ہیں.

محروم غریب عوام کے مسائل صدقہ اور خیرات کے ذریعے حل نہیں کئے جا سکتے. مجموعی طور پر غربت اور محرومی سے نجات کے علاوہ کسی اور طریقے سے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے. تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانیت کے مسائل اور مشکلات جس تیزی سے وحشیانہ اضافہ ہو رہا ہے، اگر خیرات اور خیراتی اداروں کی تعداد میں سُو گنا اضافہ بھی کر دیا جائے تب بھی اِن مسائل اور مشکلات کا تدارک ممکن نہیں ہے.

دنیا کے تمام تر مسائل کا حل ایسے نظام زر کے تحت ممکن ہی نہیں جس کی بنیاد پہ دنیا بھر کے وسائل اور دولت چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے اور باقی تمام دنیا کے عوام معاشی مشکلات اور غربت کا شکار ہیں. انسان دوست اور خوش نیت لوگوں کی اس نظام میں ایک پیادے سے زیادہ حیثیت نہیں ہوتی. انسان کے مسائل کا حل ایک اشتراکی نظام ہے.
وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم معیشت پہ قبضہ کر لیں اور وسائل کو مختص کر دیں. انسانی تاریخ میں اربوں محنت کشوں نے وہ وسائل اور دولت پیدا کی ہے جو کبھی پہلے پیدا نہیں ہوئے. مگر المیہ یہ ہے کہ یہ وسائل اور دولت مجموعی طور پر انسانیت پہ خرچ ہونے کی بجائے ایک اقلیت کے جیب میں جاتی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک عالمگیر جدوجہد کا سماج کی نچلی پرتوں سے منظم آغاز کیا جائے اور ایک سوشلسٹ سماج وجود میں آ جائے. رہ جاتی ہے بات اُن لوگوں کے جذبات اور احساسات کی، جو خیرات اور امداد لینے کی ذلت سے گزرتے ہیں. کبھی ضرورت کے وقت کسی سے ادھار مانگ کر دیکھیے، امداد و خیرات تو بہت دور کی باتیں ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے