’’برہان کے ابابیل اور برہمن ابرہہ‘‘

تحریک آزادی جموں وکشمیر کے ہیرو برہان مظفر وانی اور ان کے دوساتھیوں فراز اور خالدکی شہادت کے فوراََ بعدبرہمن ابرہہ اور اس کی بدمعاش اور دہشت گرد فوج نے پوری وادی کو خاک وخون میں نہلا دیا ہے۔14جولائی رات کے11:00بجے جب میں یہ آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔میری وادی میں40معصوں کو شہید اور 1500سے زیادہ نہتے لوگوں جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے کو زخمی کر دیا گیا ہے،ستم بالائے ستم یہ کہ بھارتی دہشت گرد فوج نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک لیجانے والے رضاکاروں و ایمبولینسس تک کو بھی نہیں بخشا اور انسانیت کی ادنیٰ ترین قدروں کو بھی پامال کیا۔

میں جب سوشل میڈیا پر اپنی ماؤں،بہنوں،بیٹیوں،نوجوانوں ،بزرگوں اور معصوم بچوں تک کو بھی برہمن ابرہہ کے مسلح اور خونخوار درندہ خصلت افواج کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر لئے سینہ تان کے کھڑادیکھتا ہوں تو میرا گمان یقین کی انتہاؤں کو چھو نے لگتاہے کہ یہ نہتے عوام،عوام نہیں بلکہ وہی ابابیل ہیں جنہوں نے مغرور اور متکبر بادشاہ ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں کے لشکر کو’’کعصف ماکول‘‘بنا کر رکھ دیا تھا اور آج یہ’’برہان کے ابابیل‘‘ بن کر برہمن ابرہہ کے7لاکھ لشکر کے لئے موت کا پیغام بن کر وادی کے چپے چپے پرچھائے ہوئے ہیں۔

مجھے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت پر کبھی کبھی ترس آنے لگتا ہے اوران کی ناقص اور احمقانہ عقل پر دل ماتم کرنے کی ضد بھی کرتا ہے کہ یہ فوج اور اس کی عسکری صلاحیت کیوں گذشتہ27،28سالوں سے چند ہزار اور کبھی چند سو آزادی کے متوالے مجاہدین کے ہاتھوں پٹ رہی ہے؟کیوں بھارت کی7لاکھ فوج آج تک کشمیر کی7گز زمین پر بھی بھارتی محبت کے بیج بونے میں کلی طور پر ناکام رہی ہے؟کیوں گردش ایام کے ساتھ ساتھ نفرت کی چنگاریاں آتش فشاں کاروپ دھار گئیں ہیں؟کیوں ہر طلوع ہونے والے سورج کی کرنیں کشمیریوں کی تحریک آزادی میں تکمیل کا رنگ بکھیرتی نظرآرہی ہیں؟

میں بھارت میں بسنے والے سوا ارب انسانوں سے ان سب سوالوں کا جواب چاہتا ہوں اور میری یہ بھی خواہش ہے کہ اب تمام بھارتی ناگرکوں کو ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کوکٹہرے میں کھڑاکرنا ہوگا۔دل ودماغ پر مذہبی تعصب کی کالی پٹی باندھ کرحقیقت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نظرانداز کرنا کتنی بیوقوفی اور جہالت کی روش ہے آپ جب تک اس حقیقت کو اپنے راجن نیتک پنڈتوں و عسکری دلالوں کی کالی عینک سے دیکھتے رہیں گے تب تک موت و حیات سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل اس مسئلہ’’مسئلہ کشمیر‘‘کے حل کی طرف بڑھنا قطعی طور پر ناممکن العمل ہوگا۔

برہان مظفر وانی اور اس کے دو ساتھیوں کی شہادت پرکشمیرکی ہر گلی ،کوچے،دوراہے اور چوراہے پر ہونے والا احتجاج درحقیقت برہمن ابرہہ اور اس کی سفاک فوج کے خلاف کشمیریوں کی نفرت کا اظہار ہے۔ناممکن ہے کہ بھارت جانب دار دنیا کی حمایت کے ساتھ بھی اس نفرت پر قابو پاسکے،ہاں البتہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعدیہ بات اب نوشتہ دیوار اور پتھر کی لکیر بن چکی ہے کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت سے بے انتہا نفرت کرتا ہے اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کا بدلہ لینے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

’’خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے مصداق بصد احترام عرض ہے کہ حکومتِ پاکستان اور مقتدر اداروں سے بھی سبز ہلالی پرچم میں لپٹا شہید برہان مظفر وانی کا جسدِ خاکی چیخ چیخ کر یہ پوچھ رہا ہے کہ تم کب تک سیاسی،سفارتی اور اخلاقی مدد کی مدھر مگر بیکار دُھن بجا بجا کرخود کو فریب دیتے رہوں گے؟کب تک کشمیری جیوے جیوے پاکستان اور پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگا لگا کرخود کو بہلاتے رہیں گے۔اب وہ وقت آچکا کہ معذرت اور مصلحت کی چادر کو چاک کرکے نئے عزم اور محسوس منصوبہ بندی کے ساتھ قدم اٹھایا جائے وگرنہ تاریخ اپنا قدم اٹھائے گی اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے