مٹھائی کے بدلہ وزارت

مجھ پر یہ عقدہ اب کھلا ہے کہ مارشل لاء کے اثرات ہر سیاسی جماعت پر الگ الگ ہوتے ہیں، اگر یہ پیپلز پار ٹی کے دور میں ہوا تو یہ غلط ہو گا لیکن اگر یہی خطرہ نواز شریف کی حکومت کو درپیش ہو تو وہ دانشور جو کبھی جمہوریت کا دفاع کرتے نظر آتے تھے اب فوجی ترجمان بنے دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا وہ سینیٹر جو کبھی فوجی کے خلاف لڑائی میں ایک معزول چیف جسٹس کا وکیل بنا تو ایک ہی دن میں شہرت کی منزلوں پر جا پہنچا، لوگوں نے بھلا دیا کہ اس ایک شخص نے بھارت کو سکھوں کی فہرست پہنچائی جس کے بعد بھارتی پنجاب میں اس فہرست کے مطابق سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف خوف ناک کارروائی ہوئی۔۔ امرتسرمیں گولڈن ٹیمپل میں خونریزی ہوئی۔۔ وہ ایک لمحہ جس میں اعتزاز احسن نے جسٹس افتخار چوہدری کا وکیل اور ڈرائیور کا کردار سنبھالا سب منفی باتیں ختم ہو گئیں اور لوگوں نے اس وکیل کو بھی عام انسانوں کی صف سے نکال کر اسے عظیم انسان بنا دیا۔

عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو کبھی کسی کمزور لمحے میں بھی لڑکھڑاتے نہیں لیکن اعتزاز احسن بھی کمزور لمحے میں کمزور پڑ گئے اور ایک بزنس اور پراپرٹی ٹائیکون کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس کے بعد وہ سینیٹر بن گئے لیکن سینیٹر بننے کے بعد بھی ایک مرتبہ سینیٹ میں جب فوجی عدالتوں کے قیام کا بل آیا تو پیپلز پارٹی نے اس کی حمایت کی جبکہ اعتزاز احسن اور میاں رضا ربانی نے اپنی تقریروں میں روتے ہوئے کہا وہ پارٹی ڈسپلن کے سامنے مجبور ہیں ورنہ وہ فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں تھے۔

آج سینیٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام پر رونے والا ملک بھر میں راحیل شریف سے مارشل لا کی اپیل پر مبنی بینرز پر نہیں رویا۔۔۔ بلکہ انہوں نے آئی ایس پی آر سے بھی پہلے تردید جاری کر دی، کہنے لگے یہ بینر خود حکومت نے لگوائے۔حیرت ہوتی ہے جب ایک ایسا شخص جسے آپ آئین سے محبت کرنے والا سمجھیں اور وہ صرف اپنی پارٹی سے محبت کرتا نظر آئے۔

ایک اور صاحب ہیں جنہوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں سیاست کا آغاز کیا، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر شہر میں مٹھائی تقسیم کی، بھٹو کے خلاف سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں نظمیں بھی پڑھیں مگر جب ن لیگ سمیت کسی جماعت سے لفٹ نہ ملی تو وہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کا وکیل بن گیا، وکالت کا نقب لگاتے ہوئے جہاں فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ بھی سینیٹ میں پہنچے تو یہ بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ وہ جماعت تھی جو آمریت کے خلاف جدوجہد کا نشان سمجھی جاتی تھی۔۔ لیکن اس دور میں جب عدالتوں سے نظریہ ضرورت رخصت ہوا تو یہی نظریہ ضرورت پیپلز پارٹی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

خود ساختہ ڈاکٹر وکیل نے عمران خان کے دھرنا کے دوران بھی دھرنا کا ساتھ دیا جبکہ اس کی پارٹی دھرنے کی مخالفت میں تھی ۔۔ اس دلیر انسان نے مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر خود مارشل لاء کو دعوت دی۔یہاں تک بھی ٹھیک تھا لیکن ان دنوں میں کئی جیالے صحافیوں کے چہرے سے بھی جمہوریت کا ماسک اترتا دیکھا۔۔یہ لوگ فوج کی مخالفت میں بات کرتے دکھائی دیتے تھے، یہ ڈکٹیٹر نہیں بلکہ فوج کے مخالف ہی سمجھے جاتے تھے۔۔۔ لیکن آج کل وہ بھی مارشل لاء کے حامی نظر آ رہے ہیں کہتے ہیں پہلے کبھی بینرز نہیں لگے تھے، بینرز کے ساتھ کوئی فوجی آمر پہلے آیا نہ اب آئے گا، یہ بینرزبھی نواز حکومت نے خود لگوائے ہیں۔ کہتے ہیں صحافی افضل بٹ نے سپریم کورٹ میں ان بینرز کے خلاف پٹیشن کیوں دائر کی، ایک صحافی کا کام نہیں، ہمارا جمہوریت سے کیا لینا دینا، ہمیں پارٹی نہیں بننا چاہئے۔۔ یا یہ کہ ابھی مارشل لاء لگا تو نہیں پھر سپریم کورٹ جانے کا کیا مقصد؟ جو لوگ بھی افضل بٹ کی حمایت کریں گے ان کا بھی کوئی ذاتی مفاد ہو گا۔۔وغیرہ وغیرہ

ان تمام لوگوں پر گو کسی دلیل کے اثرانداز ہونے کی کوئی امید تو نہیں پھر بھی کچھ باتیں کرتا چلوں۔۔ بھائی اب پہلا والا دور نہیں یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، جدید دور ہے، ہو سکتا ہے بینرز کے ذریعہ یہ دیکھا جا رہا ہو لوگوں کا کیا رد عمل ہو گا پھر فیصلہ کیا جائے گا۔ یا یہ بھی کہ زندگی میں کئی چیزیں پہلی بار ہوتی ہیں شاید اس مرتبہ یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہوگا۔ سپریم کورٹ میں پٹیشن کا مقصد یہ بتانا ہے ہم اپنے ماضی سے اب بھی دور نہیں ہیں ماضی میں بھی مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کی اب بھی کریں گے۔ ماضی میں میڈیا رات کو سوتا تھا جب صبح مارشل لا لگ جاتا اخباری دفاتر میں فوجی آ کے بیٹھ جاتے سنسر کا کام کرنے۔ اب میڈیا لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ ابھی مارشل لاء لگا تو نہیں پھر کیا مقصد۔۔

اگر نثار عثمانی ، منہاج برنا، آئی ایچ راشداور دیگر صحافی راہنما بھی یہ سوچتے ہمارا جمہوریت سے کیا لینا دینا توپھر شاید وہ خوشحال زندگی گزارتے، انہوں نے جیلیں کاٹیں، ناصر زیدی، اقبال جعفری، خاور نعیم ہاشمی بھی یہ سوچتے تو شاید آج بھی ماہ مئی میں ان کی کمر میں دہکتی آگ انہیں لگائے گئے کوڑوں کی یاد نہ دلاتی۔۔ وہ بھی رشید صدیقی اور ضیا الاسلام انصاری بن جاتے اور اپنے بچوں کے خوشگوار مستقبل کا ہی سوچتے لیکن یہ سب تو دیوانے تھے شاید۔۔
ہمیں پارٹی کیوں نہیں بننا چاہئے، آمریت اور جمہوریت کی لڑائی ہو تو صحافی کو جمہوریت کا ساتھ ہی دینا پڑے گاکیونکہ ہمیں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے اور شاید نہیں بلکہ یقینناً آمریت میں آئین نہیں ہوتافرد واحد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ۔مارشل لاء سے پہلے کیس کیوں؟ بھائی صاحب آپ کے گھر چوری یا ڈکیتی نہیں ہوتی تب بھی آپ چوکیدار یا سیکورٹی گارڈ کو تنخواہ دیتے ہیں، کیوں؟ چوری ہونے کے بعد کیوں نہیں چوکیدار رکھتے؟ اور پھر مارشل لاء لگا تو کیسی عدالت کیسا کیس؟ پھر تو آپ خود بھی فوجی عدالت میں ہی جائیں گے۔
ان تمام حالات کے بعد میں نے تو فیصلہ کیا ہے ، ابھی خاموش رہوں گا، مارشل لاء لگ گیا تو مٹھائیاں تقسیم کروں گا، اگر مارشل لاء حکومت میں نہ سہی پیپلز پارٹی میں تو جگہ پکی ہے، پھر وزارت بھی مل سکتی ہے ، پھر بندہ کیوں اپنے حالات خراب کرے فضول میں، اس فضول جمہوریت کے لیے۔۔۔جمہوریت کا نواز شریف کے دور میں کیا کام۔۔ ویسے بھی اپنے کپتان نے کہہ دیا ہے پاک فوج آئی تو عوام مٹھائی بانٹیں گے، پھر کیا خیال ہے مٹھائی کیوں نہ خریدی جائے، مٹھائی کے بدلہ میں وزارت کوئی مہنگا سودا تونہیں؟ کیا خیال ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے