ابھی عشق کے امتحان اور ہیں

بس جی بہت ہوچکا۔۔منا لیا ڈھیر سار ا غم ۔ سوگ میں ڈوبی رہی پوری قوم ۔فیس بک کی ڈی پیز اور کور تبدیل کرکے وہ کام کردکھایا جو شائد ہماری پہنچ میں بس اتنا ہی تھا ۔ چہرے لٹکا کر’ قوم کے محسن ‘ کا دکھڑا رو کر خود کوتسلی دے چکے ۔ تابڑ توڑ دلائل کی توپیں داغ کر ثابت کرچکے ہیں کہ ایدھی کا مذہب تھا تو کیا ۔

کئی مثالوں کی لمبی لمبی دیواریں کھڑی کرچکے کہ انہوں نے کفن کے بغیر تدفین کیوں کی ۔۔حکمرانوں کو’ آنکھیں ‘ لگوانے کی بھی باریک سی چٹکی لے چکے ۔ ایدھی کے ’’فرامودات ‘‘ سوشل میڈیا کے کھونٹے پر ٹانگ کر ، ان کی تصویروں کا جمگھٹا لگا کر جتا دیا کہ ہمیں اُن کی جدائی کا غم کتنا ہے ۔ کسی نکڑ یا عمارت پر ’ ایدھی ‘ کا بورڈ لگا کر کیسے وہ ہمارے دل میں زندہ ہیں۔ کھارادر کی سانپ جیسی بل کھاتی گلیوں میں جا جا کر تعزیت اور عظمت کے گھسے پٹے ڈائیلاگز بول کر جی ہلکا کرلیا ۔ بس یہی رنج ، دکھ اور ملال کافی ہے ۔۔ زندگی میں اور بھی کچھ کام ہیں ۔

اس جھمیلے میں رہے تو وہ سارے کے سارے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ ۔ ایدھی صاحب کی شخصیت کیسی تھی ، وہ کتنے سادہ طبعیت تھے۔ کتنے کم خرچ تھے ، کتنے محنتی اور انسان دوست تھے ، یہ سب ہم مہنگے مہنگے ملبوسات پہنے ٹی وی اینکرز کے ذریعے بخوبی جان پائے ۔ ۔ ایدھی صاحب کو یاد کرنا ہے تو اب اگلے سال برسی پر یاد کرنا ۔ شمعیں جلانا ، بھاری رقم پھونک کر ’سادہ مزاج ‘ ایدھی پر سیمینار اور تقریبات کرنا ۔ ۔ایدھی صاحب کی انسان دوست شخصیت کے دیکھے اور ان دیکھے روپ پر وہ وہ مقررین بھاشن دیں گے ، جو ایدھی جیسے جیسے عام انسان سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کریں ۔ اور پھر پرُ تکلف ناشتے کی میز پر آکر بھول جائیں گے کہ سر راہ کسی ضرورت مند نے بھی بھوکے پیٹ ہاتھ پھیلایا تھا۔

ایدھی صاحب کے افکار کا رونا پیٹنے والے کئی تو ایسے ہیں جو بیچ چوراہے پر کسی زخمی کو تڑپتا دیکھیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں موندھ کر اپنی اپنی منزل کی راہ لیتے ہیں۔ پتا نہیں ہم کیوں یہ سمجھیں بیٹھے ہیں کہ ایدھی صاحب کسی دوسرے جہاں کی مخلوق تھے ۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی ذمے داریوں سے کنی کترانے کے لیے انہیں ’ سپر مین ‘ کا خطا ب دے کر اُسی کے پیچھے خود کو چھپا رہے ہیں۔ ۔۔

کسی اور ایدھی کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھنے والے خود بھی ایدھی بن سکتے ہیں۔ لیکن ہر لمحہ ہر پل اور ہر دن اپنے اندر بیٹھے ایدھی کا گلہ گھوٹتے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھا کر پھر دو قدم پیچھے کردیتے ہیں۔ جو ایدھی کرتے تھے وہ کام حکومت کی ذمے داری بتا کر ، اس کے کے کھاتے میں ڈال کر بہت ہی ’ فلاحی کام ‘ کر جاتے ہیں۔ ۔تو چھوڑیں جناب ۔۔۔ کیوں ایدھی کے لیے تڑپیں جب ہم خود ایدھی بننا نہیں چاہتے ۔۔ بس حکومت اگلے برس دن منارہی ہے ناں ۔۔۔ سڑکوں کے نام رکھے جارہے ہیں ناں کافی ہے اور تو اور سکہ بھی جاری ہورہا ہے ۔ ہاں یہ طے ہے کہ نہ حکومت اور ناہی ہم ایدھی جیسے کام کرکے اپنا سکہ منوائیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے