قندیل

میں اس واقعے پہ کوئی مرثیہ نہیں لکھوں گا اور نہ ہی کوئی جذباتی تقریر کروں گا. نہ ہی میں "کینڈل آنٹیوں” کی طرز پہ عورت کی مجبوریاں گنواؤں گا اور نہ ہی ناصحین والا "ٹیپ ریکارڈر” آن کروں گا. میں ذاتی طور پر اِس موضوع پہ خاموش رہنا چاہتا تھا مگر کچھ دوستوں کے اصرار پہ لکھنے لگا ہوں. پچھلے کچھ عرصے سے سماجی دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بتانے سے قاصر ہوں اور گالیاں ایسی ایسی سن چکا ہوں کہ بس مت پوچھیں. خیر لکھے دیتا ہوں، چند گالیاں اور سہی!!!

تین واقعات ملاحظہ فرمائیں:

١. نبی آخر الزماں صل اللہ علیہ والہ و سلم گویا ہوئے:
"اپنی عورت کو کسی غیر کے ساتھ حالتِ غلط میں دیکھو تو عزت کے ساتھ فارغ کر دو یا چار گواہ لے کر آؤ جن میں تمہاری اولاد، بیویاں اور غلام شامل نہ ہوں”
سعد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے:
یعنی میں گھر جاؤں اور اپنی عورت کو کسی مرد کے ساتھ ننگی حالت میں دیکھوں اور اُس کا وہیں فیصلہ نہ کر دوں، میری غیرت گوارہ نہیں کرتی”
جنابِ محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"سعد بیٹھ جاؤ، مجھ تجھ سے زیادہ غیرت مند ہوں اور میرا اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے، پس اُس کو عزت سے فارغ کر دو یا چار گواہ لے کر آؤ جن میں تمہاری اولاد، بیویاں اور غلام شامل نہ ہوں”.

٢. ایک بندہ خدمتِ محمدی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اعترافِ زنا کیا، رسول اللہ نے منہ دوسری جانب پھیر لیا، بندہ تین بار یہی اعتراف رسول اللہ کے دونوں جانب جا کر کرتا ہے مگر رسول اللہ تینوں بار چہرہ دوسری جانب پھیر لیتے ہیں. چوتھی مرتبہ حکم اجراء حد دیتے ہیں.

٣. وہ، جن کو کچھ پہلا خلیفہ مانتے ہیں اور کچھ چوتھا، اُنکی خدمت میں افراد حاضر ہوئے اور بولے کہ:
"فلاں مقام پہ ایک مرد ایک عورت زنا کاری کر رہے ہیں”.
جنابِ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ایسا ممکن نہیں، اسلامی ریاست میں ایسے کام نہیں ہوتے”.
وہ افراد بولے:
"نہیں امیر المومنین ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا”.
امیر المومنین بولے:
"نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو”.
افراد بولے:
"چلیں ہم آپکو وہاں لیے چلتے ہیں، آپ خود دیکھ لیں”.
امیر المومنین نے اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر بعد ایک چھڑی ہاتھ میں لیے واپس آئے. چھڑی کا درمیان تک چِر کر دو حصوں میں تقسیم تھی. امیر المومنین اُن افراد کے ساتھ اُنکی بتائی ہوئی جگہ کی طرف چل پڑے اور چلنے کے دوران اُس چھڑی کو زمین پہ مارتے گئے. جب متعلقہ مقام پہ پہنچے تو وہاں کوئی بھی تھا. امیر المومنین نے فرمایا:
"میں نے کہا بھی تھا، یہاں تو کوئی بھی نہیں”
وہ افراد بولے:
"وہ دونوں مرد و عورت آپکی چھڑی کی آواز سن کر بھاگ گئے ہیں”.

اِن واقعات کے بیان کے بعد قرآن کی ایک آیت پیش کرنا چاہتا ہوں:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ
ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں.

ارشادِ نبوی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے:

فزناالعین النظر
آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے.

قندیل بلوچ کو کون دیکھتا تھا؟ قندیل بلوچ کی تصاویر اور ویڈیو کون دیکھتا تھا؟ جو دیکھتے تھے وہ اُس کو گندہ کیوں کہتے تھے؟ اور نہیں دیکھتے تھے وہ کیسے کہتے تھے کہ وہ گندی ہے؟ ہم اُس کو گندہ کہہ رہے ہیں مگر خود کو نہیں، کیوں؟ بازار میں وہی جنس زیادہ بکتی ہے جس کو لوگ زیادہ خریدتے ہیں.

قندیل نے اپنے قاتل بھائی کو کاروبار کر دیا تھا، وہ "حرام” کی کمائی سے شروع ہونے والے کاروبار سے "حلال” روزی کماتا تھا. پھر اچانک اُس کو قتل کر دیا، کیوں؟ یہ غیرت کا معاملہ نہیں ہے. غیرت کا معاملہ ہوتا تو وہ قندیل سے معاشی مفادات نہ لیتا. معاملہ کچھ اور ہے.

مگر قندیل ہمارے سماج کا، ہمارے معروض کا بھر پور اظہار تھی. مجھے ایک کال گرل سے گفتگو کا موقع ملا. اُس نے بتایا کہ اُس کے باپ نے آٹھ لاکھ کی کار لینی تھی. لہذا اُس کے باپ نے اُسکی نائیکہ سے آٹھ لاکھ لیے ہیں اور وہ لڑکی اب نائیکہ کے پاس آٹھ لاکھ پورے کر رہی ہے. قندیل کا معاملہ بھی یہی تھا. اِس بدبودار نظام میں جہاں انسان کا انسان سے اتنا گہرا رشتہ نہیں ہے جتنا اشیاء سے بن چکا ہے، وہاں لڑکیاں اشیاء، لباس، کار، موبائل، میک اپ، گھر، خوراک اور دوسری تعیشات کیلئے وہ گندہ کام کرتی ہیں جن کی بازار میں بہت مانگ ہے.

گندے کاموں کی وجوہات تلاش کرنا بہت ضروری ہیں. بیماری کے خاتمے کیلئے بیماری کی وجوہات کا خاتمہ کرنا پڑے گا. ناسور کو اوپر سے کاٹ کر مرہم لگا دینے سے کچھ وقت کے لیے آرام آ جائے گا. مگر کچھ دیر بعد وہی ناسور پھر سے اُگ آئے گا کیونکہ ناسور کی جڑیں موجود ہیں. اسی طرح سزاؤں سے جرائم ختم نہیں ہو سکتے، جب تک جرائم کی وجوہات ختم نہیں ہونگی. مذکورہ بال کال گرل مجھے عدالت میں ملی تھی جہاں وہ ایک چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے مقدمہ کی پیروی کیلئے آئی ہوئی تھی. حوالات، عدالت، جیل وغیرہ کا معاملہ ہونے کے باوجود وہ وہی دھندہ جاری رکھے ہوئے تھی کیونکہ وجوہات باقی تھیں.

بدر کے میدان میں مومنین کی نصرت کیلیے فرشتے آسمان سے کیویں اتر کر آئے تھے؟ کیونکہ مومنین نے فضاء بدر پیدا کی تھی. آج فرشتے مومنین کی نصرت کیلئے کیوں نہیں اترتے؟ کیونکہ ہم بدر والی فضا پیدا کرنے سے قاصر ہیں. ہر معاملے کے پیچھے ایک کیوں ہوتا ہے. اور ہر کیوں کا ایک جواب ہوتا ہے. اِسی کیوں کا جواب تلاشنا ہی اصل حق ہے.

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 2.5 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے ہیں. پندرہ برس کی عمر سے زائد کے پچاس فیصد پاکستانی بےروزگار ہیں. چوری، فراڈ، کرپشن اور غیر اخلاقی و غیر قانونی دھندوں کا جواز یہی معاشی عذاب ہے. جبکہ دوسری جانب پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس اٹھارہ سو کروڑ امریکی ڈالر کے ذخائر موجود ہیں. یہی فرق لوگوں کو چوری، فراڈ، کرپشن اور غیر اخلاقی و غیر قانونی دھندوں کی طرف لے جاتا ہے.

طبقاتی تضاد کا خاتمہ ہی فوزیہ عظیم کو قندیل بلوچ بننے سے روکے گا، ورنہ روز کئی فوزیہ عظیم مجبوراً قندیل بلوچ بنیں گی اور قتل ہوتی رہیں گی. اگر آپ قندیل بلوچ والی "گندگی” صاف کرنا چاہتے ہیں تو طبقاتی نظامِ زر کا خاتمہ کیجیے. اور اگر قندیل بلوچ کا قتل روکنا چاہتے ہیں تو طبقاتی نظامِ زر کا خاتمہ کریں. ورنہ قندیل بلوچ ہمارے سماج کا بھر پور اظہار ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے