ضميرِصحافت ضمير نيازی کے حالات و افکار

پاکستانی ميڈيا کی اخلاقيات کے زوال اور بحرانوں کے متعلق سوچتے ہوۓ ضمير نيازی بہت ياد آتے ہيں۔ ايک ايسا شخص جس نے اپنے سچ کی قيمت خود ادا کی اور کبھی بھی اس بات پر انہوں نے پچھتايا نہيں۔ سچ، وابستگی، اخلاقيات، اصول پسندی، ديانتداری، عقل و دانش، معلومات اور ان تمام خصوصيات کے درميان توازن رکھنے کے عمل کو اگر ايک لفظ میں ڈھالا جاۓ تو وہ ضمير نيازی کا روپ دھار لے گا۔ روزنامہ ڈان کے سابق ايڈيٹر علی احمد خان نے انہيں `ضمير صحافت `کے لقب سے نوازا تھا ۔ انہيں ياد کرنے کی ضرورت اس لۓ بھی زيادہ پيش آتی ہے کہ انہوں نے جن خدشات کی نشاندہی کی تھی وہ آج تباہ کن مسائل کی صورت میں ملکی میڈیا کو درپيش ہيں۔ پاکستان ميں ميڈيا سيکٹر پر ان کے کيے ہوئے احسانات کو کبھی فراموش نہيں کيا جاۓ گا۔

1932ء میں، بمبئ ميں پيدا ہونے والے ضمير نيازی نے ابتدائی تعليم مکمل کرنے کے بعد معروف اخبار `اجمل` ميں کام کرنا شروع کيا جو قومپرستانہ رجحانات والا ايک اخبار تھا۔ اس دوران تقسيمِ ہند نے برصغير کو دو حصوں میں بانٹ ديا۔ 1953ء کی ابتدا ميں ان کا خاندان پاکستان پہنچا اور اسی سال کے آخر ميں انہوں نے روزنامہ `ڈان` ميں اپيرنٹس ايڈيٹر کی حيثيت سے ملازمت کی ابتدا کی۔ بعد ازاں تين سال تک روزنامہ `دی نيوز` ميں چيف سب ايڈيٹر اور ليڈ رائٹر کے طور پر خدمات سرانجام ديتے رہے۔ 1965ء کے آخر ميں روزنامہ `بزنس ريکارڈر` ميں ملازمت کا آغاز کيا جہاں نيوز ايڈيٹر کی حيثيت سے 1991ء تک سرگرمی سے اپنی پيشيورانہ ذمہ دارياں نبھاتے رہے۔ 59 برس کی عمر ميں گرتی ہوئی صحت نے انہيں عملی صحافت سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کيا ليکن قلم کی جنگ پھر بھی لڑتے رہے۔

مدرسہ کے فارغ التحصيل ضمير نيازی نے اپنی پيشورانہ خدمات کے ساتھ ساتھ تين ايسی کتابيں تحرير کيں جو پاکستان ميں پريس پر عائد پابنديوں کا کچا چٹھا تصور کی جاتی ہيں۔ `پريس اِن چَئنس` 1986ء ميں شائع ہوئی جو قيام پاکستان سے لے کر صحافتی تاريخ کا احاطہ کرتی ہے۔ زيرِ ذکر تصنيف کوئی چھاپنے کے لئے تيار نہ تھا بلآخر پريس کلب کراچی نے حامی بھری اور جيسے ہي کتاب چھپ کر آئی تو انہوں نے ايک سؤ کاپياں دوستوں ميں تقسيم کرديں تاکہ چھاپے لگنے کی صورت ميں کہيں سب نہ لے جائيں۔ مذکورہ کتاب کو ہر طرح سے نظرانداز کيا گيا۔ کسی بھی لائبرری کو اس کی خریداری کی اجازت نہيں دی گئی۔ يہاں تک کہ ميڈيا نے اس کی رونمائی کی خبر بھی نہيں چھاپی۔ `بز نس ريکارڈر` جس کا وہ خود حصہ تھے، اس نے مہمانِ خصوصی فخر جی ابراہيم کی تقرير تو چھاپی ليکن تصنيف کے متعلق کی گئی گفتگو ميں سے ايک لفظ بھی شائع نہيں کيا۔ خبر کے آخر ميں صرف کتاب کا نام ديا گيا ليکن مصنف کو بہرحال نظرانداز کرديا گيا۔ ضياء الحق بھی بڑے ذہيں تھے۔ انہوں نے تصنيف کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کيا۔ انہوں نے غيرملکی صحافیوں کو بلواکر نيازی صاحب کی کتاب کی کاپی دکھائی اور کہا کہ اگر ملک ميں اظہارِ آزادی نہيں تو پھر اس قسم کی کتاب کيسے چھپی اور کيسے نہ آزادی کے ساتھ فروخت ہو رہی ہے؟

1992ء ميں ان کی کتاب `پريس اَنڈر سِيج` شائع ہوئی جو صحافت پر سياسی، مذہبی اور نسلی دباؤ کےمتعلق ہے۔ اس تصنيف ميں ضياء کے دور کے بعد کی صورتحال کو زيرِ بحث لايا گيا ہے۔ وہ ايم کيو ايم کے ابھار کا دور تھا اور ہر کوئی اس( ايم کیو ايم) کے خلاف بات کرنے سے گريز کرتا تھا۔ ڈاکٹر طارق رحمان اپنے آرٹيکل بعنوان `ضمير نيازی کو الوداع` ميں لکھتے ہيں کہ ضمير نيازی نے کراچی کے عام لوگوں کی حمايت کے بغير ايم کيو ايم کے خلاف لکھا: ” ہميں آج رياستی پابنديوں اور گليوں کے وحشيت زدگی کے خلاف بيک وقت آواز اٹھانی چاہۓ۔ شاید یہ کرنے کے لۓ ہمارے پاس آخری موقعہ ہوگا، کل دير ہو چکی ہوگی۔ شايد کل کبھی آۓ ہی نہ۔

1994ء ميں اوکسفورڈ يونيورسٹی پريس نے ان کی تصنيف `ويب آف سنسرشپ` شائع کی جو ضياء کے دور ميں پريس پر عائد پابنديوں کے متعلق ہے۔ علاوہ ازيں ان کی لکھی ہوئی، ترجمہ کی ہوئی اور مرتب کردہ ديگر کتابوں کی تعداد تين سے زائد ہے۔ نيازی صاحب صحافت ميں منفی رجحانات کے سخت مخالف تھے ليکن جب بھی صحافت پر کوئی حملہ ہوا تو انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کيا۔ کبھی بھی انہوں نے يہ پرواہ نہ کی کہ وہ اس جنگ ميں اکيلے ہيں، بس لڑتے رہے، جھگڑتے رہے۔ با اصول ہونے کا عالم يہ تھا کہ شام کے اخبارات جن کے وہ سخت مخالف تھے ،جب حکومت نے ان پر پابندی عائد کی تو انہوں نے اس عمل کی سختی سے مذمت کی۔ کراچی يونيورسٹی نے انہيں پی ايچ ڈی ڈگری دينے کا اعلان کيا ليکن انہوں نے لينے سے انکار کر ديا کہ وہ يہ سَنَد گورنر سے وصول نہيں کريں گے کيونکہ وہ حکومت کے نمائندے ہيں۔ ان دنوں کمال اظفر سندہ کے گورنر تھے۔ نيازی صاحب نے يہ شرط رکھی کہ اگر گورنر کيمپس آئے تو وہ چانسلر کی حيثيت سے ان سے ڈگری لينے کے لئے تيار ہيں ليکن وہ گورنر ہائوس نہيں جائيں گے۔ اس طرح انہوں نے پی ايچ ڈی ڈگری وصول نہيں کی۔ نہ صرف يہ انہوں نے بہترين کارکردگی کی بنا پر ملنے والا تمغہ بھی قبول کرنے سے انکار کرديا اور ساتھ ساتھ 50 ہزار روپيے کی رقم واپس کرتے ہوئے صدرِ مملکت کو شام کے اخبارات پر پابندی کے خلاف احتجاجی خط بھی لکھا۔
ڈاکٹر آصف فرخی جن کو نيازی صاحب نے( کاليج کے زمانے ميں) لکھنے کے لئے رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی تھی، ان کے پروفائل بعنوان "صرير خامہ اے ضمير ہے” کی ابتدا ان الفاظوں ميں کرتے ہيں: ” ضمير نيازی صرف پيشے کے لحاظ سے نہيں بلکہ مزاج کےاعتبار سے بھی صحافی ہيں۔ ان ميں ايک مجاہد کی روح کارفرما ہے۔” صحت کی خرابی کے باوجود وہ روزانہ دس اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے، تراشے نکالتے تھے، ريکارڈ بناتے تھے اور پسند اور ناپسند مضامين کے بارے ميں لکھنے والوں کو فون کرکے اپنی آراء سے آگاہ کرتے۔” ميں ضمیر صاحب کو بہت ياد کرتی ہوں کہ وہ اکثر صبح ساڑے آٹھ بجے فون کیا کرتے تھے اور ميڈیا کے متعلق خبروں، ميرے کام پر تبصرے اور با بصيرت مشورے ديتے۔” زبيدہ مصطفی اپنے ايک آرٹيکل ميں لکھتی ہيں۔

نيازی صاحب نے جو اخباری ريکارڈ جمع کیا تھا، اس کے لئے وصيعت کی تھی کہ وہ روزنامہ ڈان کی آفس لائبرری کے حوالے کيا جائے تاکہ تحقيقی کارکنان کو اس تک رسائی حاصل ہو سکے۔ ۔ زبيدہ مصطفی اپنے مذکورہ آرٹيکل ميں مزيد بيان کرتی ہيں کہ ” ضمیر صاحب کے وفات کے تين برس بعد آج ڈان آفس کی لائبرری ديکھنے گئی۔ ضمیر نيازی کارنر ميں ابلاغ عامہ پر 281 کتابيں موجود تھيں جن ميں سے کافی آئوٹ آف پرنٹ ہو چکی ہيں۔ اس کے علاوہ بے شمار جرنل اور اخباری تراشے موجود تھے۔”

کسی بھی فرد یا حکومت کو کبھی یہ جرئت نہ ہو سکی کہ وہ ضمير نيازی کو رشوت دے سکيں۔ حکمرانوں نے مراعات دینے کی غرض سے ان کے پاس اپنے نمائندے بھيجے تو انہيں یہ کہہ کر معذرت کی کہ "برائے مہربانی مجھے اکيلا رہنے ديں۔” دورانِ علالت انہيں بيرونِ ملک علاج کروانے کی پيشکش کی گئی ليکن انہوں نے مسترد کردی۔ ملازمت کا سارا عرصہ وہ آفس کے لئے بس ميں آتے جاتے تھے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی عيش و عشرت وہ سيکنڈ ہينڈ کار تھی جو انہوں نے 1994ء ميں اپنے سالے سے دس ہزار روپے ميں خريدی تھی!
ضمير نيازی پريس کی آزادی کے محافظ اور وکيل تھے۔ انہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے ميڈیا کی آزادی کے لئے کی گئی جنگ کا ريکارڈ چھوڑا ہے۔درحقيقت يہ ايسا کام ہے جو ادارے بھی انجام نہ دے پائے! ان کا کردار ميڈيا سيکٹر سے وابستہ افراد کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ بيماری سے بستر جا لگے لیکن مسلسل لکھتے رہے۔ ” پريس کی آزادی کا غلط استعمال پریس کی آزادی کی غير موجودگی سے بدتر ہے۔ ذمہ داری اور دیانتداری کے احساس کے بغير اختيار بہت نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔” ايک انٹرويو ميں کہتے ہيں۔

عام طور پر ميڈيا ميں ضابطہ اخلاق پر زيادہ زور ديا جاتا ہے ليکن ان کی راء بلکل مختلف تھی_” ميں تجربے اور مطالعے کی بنياد پر اس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ ضابطہ اخلاق نام کی کوئی چيز ہی نہيں۔ اخلاق قانون کے ذريعے نافذ نہيں کيا جا سکتا۔ آپ قانون کے ذريعے کسی کو بداخلاقی کرنے سے روک نہيں سکتے، صرف ہمارا ضمير ہی ہميں ايسا کرنے سے روک سکتا ہے۔اخلاق کا تعلق انسان کی ذات سے ہے۔ اگر اس کا ضمير اس کے لئے آمادہ نہيں تو دنيا کا کوئی بھی قانون اس کو پابند نہيں بںا سکتا۔”

کافی لوگوں کے لئے يہ بات حيران کن ہوگی کہ ضمير نيازی نے زندگی ميں صرف دو شہر ديکھے: بمبئی اور کراچی۔ کسی تيسرے شہر وہ جا نہيں پائے۔ مختلف موضوعات پر وسيع تر مطالعہ ان کی دانش و آگہی کا نماياں ثبوت تھا۔ نيازی صاحب کے صرف دو ہی شوق تھے: کتابيں پڑھنا اور موسيقی سننا۔ انہيں اپنے دور کے صحافيوں سے بڑی شکايت يہ رہی کہ وہ پڑھتے نہيں۔ وہ کہتے تھے کہ آج کا صحافی ان پڑھ ہے، اس ميں مطالعے کی عادت نہيں ہے۔ حيرت کی بات يہ ہے کہ وہ اپنی اخبار تک نہيں پڑھتا! جو لوگ اس راء کہ ہيں کہ ميڈيا بھی دوسری صنعتوں کی طرح ايک عام نفع بخش صنعت ہے، ضمير نيازی کا اس بات سے اختلاف ہے۔ ان کا موقف بہت منطقی لگتا ہے جب وہ يہ دليل ديتے ہيں کہ صحافت کار يا بوٹ پالش انڈسٹری نہيں ہے۔ اس کا تعلق آگہیEnlightenment) ) سے ہے، ذہنی تربیت سے ہے، علم سے بھی ہے اور سیاسی و سماجی شعور سے بھی۔ اس لئے یہ سوچيں کہ اسے بوٹ پالش انڈسٹری کی طرح چلائيں جو محض نفع ديتی رہے تو یہ بات صحيح نہيں ہے۔

اپنے ايک مضمون ميں لکھتے ہيں:” کہيں نہ کہيں صحافت نے بھی کوئی چيز کھو دی ہے، اور وہ کھوئی ہوئی چيز ہے لکھے ہوئے لفظ کی حرمت۔ نتيجے کے طور پر وہ اعتبار سے محروم ہو گئی ہے۔ گيارويں جون 2004ء کو صحافيوں کے حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے اس نڈر اور بے باک انسان نے ہميشہ ہميشہ کے لئے اپنی آنکھيں بند کرديں۔ 1997ء کو `دی نيوز` کو ديا گيا ان کا اہم انٹرويو کبھی بھی بھلايا نہيں جا سکتا، جس ميں انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت بھيانک ہے۔ ہميں ايک دوسرے کا ساتھ دينا چاہئے۔ ہر شہری کو اپنے حق کے یے آواز بلند کرنی چاہئے۔ معلومات ہمارا حق ہے اور وہ ہم سے کوئی چھين نہيں سکتا ليکن جدوجہد شرط ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے