وڈے سائیں ، الوداع

سائیں قائم علی شاہ کے دورِ اقتدار کا آٹھ سال سے زیادہ کا سورج زبردستی ہی سہی مگر غروب ہوچکا وہ عمر کے جس حصے میں ہیں لگتا یہ ہے کہ انکی عملی سیاست بھی اب اپنے اختتام کی آخری ہچکیوں میں ہے۔

انکی یاداشت سے لیکر انکی عملی سیاست پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو آسانی سے یوں منظر کشی کی جاسکتی ہے کہ
قائم علی شاہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سب سے سینئرترین اور سب سے معمر سیاستدان ہیں جنکی یاداشت کا یہ عالم ہے کے امجد صابری کے قتل کی بات کرتے تو جنید جمشید کا نام لے لیتے کراچی کی آبادی کا تذکرہ کرتے تو کئی کئی ملین آبادی بھی کراچی میں شامل کر جاتے تھے۔

قائم علی شاہ 1933میں ضلع خیر پور میں پیدا ہوئے زمانہ طالب علمی میں اُس تحریک کا حصہ رہے جس کا نعرہ تھا "بن کے رہے گا پاکستان بٹ کے رہے کا ہندستان”

عملی سیاست کا آغاز 1960 کی دہائی میں بلدیاتی امیدوار کی حیثیت سے کیا اور پارلیمانی سیاست کا آغاز 1967 میں پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی کیا شاہ سائیں نے پیپلز پارٹی کی تین نسلوں کے ساتھ اپنی وابستگی کو اپنے نام کی طرح قائم رکھا۔

قائم علی شاہ کو پاکستان میں ہونے والے پہلے الیکشن میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ایوب خان کے دور میں ضلعی کونسل کے میمبر منتخب ہوئے اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وہ کشمیر کے وفاقی وزیر رہے اِس وقت کی پیپلز پارٹی میں شاید وہ واحد ہی رہنما ہیں جو 1973 کے آئین بنانے والی 11 رکنی کمیٹی کے میمبرز میں شامل تھے جن کے آئین پاکستان میں دستخط موجود ہیں۔

قائم علی شاہ 1970 سے لیکر 2013 تک خیرپور سے کوئی الیکشن نہیں ہارے سوائے 1997 کے انتخابات کے جس میں ان کے روائیتی حریف سید غوث علی شاہ پہلی بار انکے خلاف جیت گئے بعد میں شہید محترمہ نے انہیں سینیٹر بنا دیا۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ان کے گھر پر چھاپے پڑے مگر اس کٹھن وقت میں بھی انہوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ نا چھوڑا اور جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد میں بھی پیش پیش رہے اس دوران جیل بھی جانا پڑا 1988 میں محترمہ نے پہلی بار قائم علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلی بنادیا لیکن کہا جاتا ہے کے پارٹی میں انکی مخالفت کی بنا پر محض 14 ماہ میں ہی انہیں اس منصب سے ہٹا کر ان کی جگہ آفتاب شعبان میرانی کو سندھ کا وزیر اعلی بنا دیا گیا. یوں 2008 کے عام انتخابات میں آصف ذرداری نے قائم علی شاہ کو دوسری بار وزیر اعلی بنایا اور 2013 میں تیسری مرتبہ سندھ کا وزیر اعلی بنا کر قائم علی شاہ نے وزارت اعلی کے منصب کی ہیٹرک مکمل کر لی اس طرح قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کی تین نسلوں کے وفادار رہے اور تقریبا دس سال تک سندھ کے وزیر اعلی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے مگر حالیہ حالات میں انکو اس عہدے سے ہٹانے میں بلاول بھٹو زرداری کی تبدیلی پسند سوچ کا بڑا ہاتھ ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ راتوں رات نہیں کیا گیا بلکہ بلاول بھٹو دو سال سے قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کو وزیر اعلی بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کے کوئی جوان خون شامل کیا جائے مگر اس وقت پیپلز پارٹی کے باقی رہنما اس فیصلے پر راضی نہ تھے۔

قائم علی شاہ کو اس بات کا دکھ تو ضرور ہی ہوگا کہ نصف صدی پر محیط سیاست کے اس سفر کو اپنے مخصوص انداز میں قائم رکھنے والے شاہ صاحب کی اپنی سیاست کا اختتام بھی خوشگوار انداز میں ہی ہونا چاہیے تھا۔

یہاں اگر شاہ صاحب کے دورِ حکومت کی بات کی جائے تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ کرپٹ ریکارڈ ان ہی کی حکومت میں قائم ہوئے ہیں۔

قائم علی شاہ کے دور اقتدار میں کرپشن کی بے پناہ کہانیاں سامنے آئیں مگر یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان کی اپنی ذات پر کبھی کسی کرپشن کا کوئی کیس نہیں بن سکا۔

کراچی ہو یا اندرون سندھ میں ترقیاتی منصوبے ہوں پورے سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کا جو حال ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے گڈ گورننس کا برا حال رہا ان پر تنقید ہوتی رہی میڈیا میں انکا مذاق اڑایا جاتا رہا کبھی انکے سوتے رہنے کا مذاق بنا کبھی انکی بے خبری کا کبھی ان کی بزرگی کو نشانہ بنایا گیا مگر شاہ صاحب نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا ان کے دور میں تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا سب کی تباہی کھل کے سامنے آئی ان کے ہی دور میں ترقیاتی منصوبوں پر کڑوڑوں روپے کے بجٹ کی منظوری ہوئی مگر ایک روپیہ اسکی مد میں خرچ نہیں کیا گیا صرف کراچی میں 75 ارب کے 100 منصوبوں پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا بلدیاتی انتخابات پہلے پانچ سالہ دور اقتدار میں نہیں کرواسکے دوسرے دور میں بلدیاتی انتخابات تو کروا دیئے مگر بلدیاتی فنڈز اور اختیارات بلدیاتی حکومت سے چھین کے با اختیار میئر کو بے اختیار کر کے چھوڑا اور سارے اختیارات اور فنڈز سندھ حکومت کو دے دیئے گئے۔ اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں کی غیر قانونی طور پر الاٹمنٹ بھی انکے ہی دور حکومت میں کی گئی۔ سیاسی سفارشوں پر بھرتیاں کی گئیں سندھ پولیس میں بھی من مانی غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں۔

کراچی کو عالمی کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا کراچی کے لوگ پانی کو ترستے رہے دوسری طرف ٹینکر مافیہ ،بھتہ مافیہ ،لینڈ مافیہ، بلبورڈ مافیہ اتنی مظبوط ہوتی رہی کے سپریم کورٹ کے نوٹس کو بھی نظر انداز کرتی رہی۔

صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کی گھمبیر سچویشن نے جنم لیا ٹارگیٹ کلنگ جیسے واقعات بھی ان کے دور کی ہی دین ہے۔
صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی بے بسی بھی انکے ہی دور میں دیکھی گئی سندھ کے سرکاری اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔
تھرپارکر میں نومولود بچوں کی ریکارڈ توڑ ہلاکتیں ہوئیں ۔اناج کی بوریاں گوداموں میں پڑی سڑتی رہیں لیکن عوام کی پہنچ سے دور رہی اور بے بس عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح بھوک سے مرتی رہی مگر سندھ حکومت نے کبھی اسکی زمہ داری قبول نہیں کی۔ سندھ حکومت کی نا اہلی کی ایک سے بڑھ کے ایک رپورٹ آتی رہی مگرکوئی ایکشن نہیں لیا گیا یہ سب کچھ قائم علی شاہ کے دور میں ہوا مگر ہم ان تمام معاملات کی زمہ داری صرف قائم علی شاہ کے ناتواں بزرگ کاندھوں پر نہیں ڈال سکتے کیونکہ فیصلے قائم علی شاہ نے کیئے ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت نے خود کیئے جس میں آصف ذرداری فریال تالپور اویس مظفر ٹپی سرِ فہرست تھے۔

عملی طور پر ہم قائم علی شاہ کو ایک ڈمی وزیر اعلی بھی کہہ سکتے ہیں جن کے پاس وزارت اعلی کا قلمدان تو تھا مگر اختیارات نہیں تھے۔
ہر عروج کو زوال ہے مگر جس انداز سے قائم علی شاہ نے اپنا استعفٰی پارٹی قیادت کو پیش کر دیا یو یوں کہیں کہ انہیں جس طرح سے اچانک زبردستی فارغ کیا گیا وہ ایک حیران کن عمل ہے۔
اس سارے معاملے کو فرحت اللہ بابر کی ایک پریس ریلیز سے کیا جس میں ان کی خدمات وفاداری کا کہیں کوئی زکر تک نہیں تھا کیا پیپلز پارٹی نے ان کی وفاداری کا حق ادا کیا؟

اس فیصلے سے پیپلز پارٹی کا امیج ورکرز کی نگاہ میں یقینًا خراب ہو سکتا ہے کیونکہ قائم علی شاہ نے پیپلز پارٹی کا ساتھ ہر برے وقت میں ساتھ دیا تھا اس طرح سینئرممبران پیپلز پار ٹی سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شاہ صاحب موجودہ صورتحال سے انتہائی دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور اب کچھ ہی وقت پاکستان میں رہیں گے اور چند زاتی معاملات کو نمٹا کر جلد ہی بیرون ملک چلے جائیں گے جہاں انکے خاندان کے کئی افراد پہلے سے ہی انکا کاروبار سنبھال رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلی صاحب جن کے پاس صرف بائیس ماہ ہیں اور وہ ان بائیس ماہ میں حالات کس حد تک ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا وہ بھی قائم علی شاہ کی طرح ربر اسٹیمپ ب ہی ثابت ہونگے اس کا فیصلہ تو آنے والاوقت ہی کرے گا۔
مگر یہ طے ہے کہ نئے سی ایم سندھ کو فیصلہ سازی کے اختیارات قطعی نہیں دیئے جاسکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے