مرغیاں، مرغا اور انڈے

کافی عرصہ پہلے ایک مزاحیہ فلم میں ولن اپنے ہم شکل امیر بھائی کو اغوا کرنے کے بعد اس کے لاکھوں روپے کے ہیرے قبضہ میں لے کر کہتا ہے میں ان پیسوں سے مرغیاں خریدوں گا، وہ مرغیاں انڈے دیں گی، میں بیکری بھی کھولوں گا اور ان انڈوں سے بسکٹ اور کیک بناؤں گا، انڈوں سے مزید مرغیاں نکلیں گی ، میں پولٹری فارم بھی کھولوں گا۔۔

اس ولن کا تو یہ خواب دو مسخرے ہیروز نے پورا نہیں ہونے دیا مگر محکمہ تعلیم پنجاب نے جو خواب دیکھا ہے اس سے ہمیں امید ہے دو مسخروں کا خواب ضرور تعبیر پائے گا اورمرغیوں کا کاروبار خوب ترقی کرے گا۔ ایک اخباری خبر کے مطابق محکمہ تعلیم پنجاب نے ہر سکول میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا بمع پنجرہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔۔
اس کے کئی فوائد بھی بتائے گئے ہیں، جیسے ایک تو ان مرغیوں سے حاصل ہونے والے انڈے کمزور و لاغر طالبات کو کھلائے جائیں گے جبکہ سکول کے چوکیدار کا بھی ایک انڈے پر حق ہو گا۔۔سوچئے انڈہ کھاتے ہی کیسے وہ کند ذہن لڑکی ۔۔ چنگی بھلی سیانی ہو جایا کرے گی، اس سے سکول کے رزلٹ بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے ، سکول کا چوکیدار جب انڈہ کھایا کرے گا تو وہ بھی مستعدی سے کام کرسکے گا۔ ظاہر ہے اس میں لحمیات کی طاقت جو آئے گی۔

ابھی یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں جتنے انڈے دیئے جائیں گے ان انڈوں پر مرغیوں کو بٹھانا ہے یا چوکیدار کو۔۔ ہنسنے کی بات نہیں ہے ایڈیسن نامی سائنسدان نے بھی اپنے بچپن میں یہ تجربہ کیا تھا لیکن اس سے صرف اس کی پتلون خراب ہوئی تھی لیکن اندازہ لگائیے ایک پتلون یا نیکر خراب کر کے وہ کتنا بڑا سائنسدان بن گیا تھا اس لیے قوی امید ہے کہ ہمارے سینکڑوں تعلیمی اداروں کے سینکڑوں چوکیدار گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اگر سائنسدان نہ بھی بن سکے تو سکول پرنسپل کا چارج سنبھالنے کی اہلیت تو پا ہی چکے ہوں گے۔
گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد پیدا ہونے والے چوزوں یا چوزیوں کے حوالہ سے فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں بلوچستان بھیجا جائے یا کشمیر،خیبر پختونخوا بھیجا جائے یا سندھ۔۔ فیصلہ مشکل ہے ۔ دیکھئے ناں، اگر یہ فیصلے پہلے ہو چکے ہوتے تو ہمارے پورے ملک میں کمزور اور لاغر طالبات نہ ہوتیں بلکہ صحت مند لڑکیوں نے تعلیمی میدان میں بے شمار ریکارڈ بنا لیے ہوتے اب یہ اعزاز بھی ہمارے پنجاب کو مل جائے گا کہ تمام طالبات صحت مند ہو جائیں گی اور یہ تو سب جانتے ہیں صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا مالک ہو سکتا ہے۔

ہم لوگوں نے تو ویسے بھی مرغیاں صرف ذبح کر کے کھانی ہی ہوتی ہیں۔۔شادی بیاہ ہو، کسی کا عقیقہ ہو، یا سوئم و چہلم ۔۔ ہر خوشی غمی پر مرغی بے چاری کو کاٹا ہی جاتا ہے ، وہ بے چاری بھی بھول چکی ہو گی کہ کبھی وہ انڈے بھی دے سکتی ہے۔ یہ خبر سن کر مرغیوں میں تو خوشی کی لہر دوڑ چکی ہو گی۔۔ اب مرغیوں کو انتظار ہو گا تو صرف اپنے پسندیدہ شہروں کا۔ کوئی راولپنڈی دیکھنا چاہتی ہو گی تو کوئی ملتان، کوئی قصور کی متوالی ہوگی یا اٹک کی۔۔بہرحال شہر کوئی بھی ہو میرے پنجاب کا، اب ہو گا ہر طرف مرغیوں کا راج۔۔
یہ بھی خبرنگار کو معلوم ہوا ہے کہ مرغیاں نجی شعبہ سے حاصل کی جائیں گی، مجھے معلوم ہے آپ سب کا دھیان اس وقت اسی بات پر ہوگا کہ یہ ٹھیکہ حمزہ شہباز کو ملے گا ۔۔ یا پھر قرعہ فال نکلے گا اپنے امجد ککڑی کے نام۔۔لیکن خیال یہی ہے کہ اس خرید و فروخت میں بھی پیپرا رولز کا خاص خیال رکھا جائے گا۔

ایک اور خاص بات کا خیال رکھئے گا، اس سرکلر پر جیسے ہی کارروائی شروع ہوگی لکڑی کا کام بھی مہنگا ہو جائے گا اور جالی بھی مہنگی ہو جائے گی کیونکہ ڈربوں کے آرڈر بھی دیئے جائیں گے ہر سکول کے لیے۔۔۔
اور کسی فائدے کو آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ طے ہے کہ اس سارے عمل کے بعد لوگ یہ اسرار ضرور سمجھ جائیں گے پہلے انڈہ آیا یا مرغی۔۔ دیکھا ، آپ نے بچوں اس کو کہتے ہیں گڈ گورننس یعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ انڈے اور مرغی مفت۔۔ اسے کہتے ہیں آ م کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے